61 سالہ سامیہ حسن نے تنزانیہ کی پہلی خاتون صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔
دارالحکومت دارالسلام میں ہونے والی خصوصی تقریب میں حجاب پہنے اور دائیں ہاتھ میں قرآن مجید تھامے سامیہ نے اپنے عہدے کا حلف لیا اور ملک کے آئین سے مکمل وفاداری کا عہد کیا۔
اس موقع پر کابینہ کے اراکین اور تنزانیہ کے تین سابق صدور بھی موجود تھے۔ بعد ازاں، سامیہ حسن نے گارڈ آف آنر کا معائنہ بھی کیا۔
سامیہ نے صدر جان ماگوفولی کے انتقال کے دو روز بعد اقتدار سنبھالا ہے، جو دو ہفتے تک بیمار رہنے کے بعد 17 مارچ کو انتقال کر گئے تھے۔
گو کہ ماگوفولی کی وفات کا سبب دل کی دھڑکن کا بند ہونا بتایا گیا ہے لیکن حزب اختلاف کے جلا وطن رہنما ٹونڈو لیسو کہتے ہیں کہ سابق صدر کی موت کووِڈ-19 سے ہوئی ہے۔
بہرحال، عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں سامیہ حسن نے ماگوفولی کی وفات پر 21 روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا اور سابق صدر کی تدفین کے دن 25 مارچ کو قومی تعطیل کا اعلان کیا ہے۔
سامیہ حسن نے کہا کہ آج کا دن خوشی کا دن نہیں ہے کیونکہ ہمارے دل زخمی ہیں۔ زندگی میں جتنے بھی حلف لیے، آج کا حلف ان سب سے مختلف تھا۔ وہ خوشی کے مواقع پر لیے گئے تھے اور آج ملک کے سب سے بڑے عہدے کا حلف غم کی حالت میں لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماگوفولی ہمارے لیے ایک استاد کی طرح تھے جو دوسروں کو مستقبل کے لیے تیار کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم متحد ہو کر اور مل کر کام کریں، اپنے اختلافات کو بھلا دیں، ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کریں اور مستقبل کی جانب پورے اعتماد سے دیکھیں۔ یہ ایک دوسرے پر انگلی اٹھانے کا وقت نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے اور تنزانیہ کو ایک ایسے ملک میں تبدیل کرنے کا وقت ہے جس کا ماگوفولی نے خواب دیکھا تھا۔
سامیہ کا تعلق تنزانیہ کے نیم خود مختار علاقے زنجبار سے تھا اور وہ ماگوفولی کے دور میں نائب صدر کے عہدے پر فائز رہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال کے بعد صدارت پر فائز ہوئی ہیں۔
Pingback: خواتین فٹ بالرز میں نسوانیت کی کمی ہوتی ہے، تنزانیہ کی صدر کا حیران کن بیان - دی بلائنڈ سائڈ