برطانیہ کے علاقوں انگلینڈ اور ویلز میں ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین کی بہت بڑی تعداد معاملے کو پولیس کے پاس نہیں لے جاتیں۔ اس کی وجہ انصاف کی فراہمی کے عمل کا حد "درجہ ذلت آمیز اور اذیت ناک” ہونا ہے، اور یہ بھی کہ انہیں "انصاف ملنے کی بہت کم توقع” ہوتی ہے۔
سرکاری ادارے آفس فار نیشنل اسٹیٹس (ONS) کے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مارچ 2020ء کو مکمل ہونے والے سال میں ریپ کا شکار ہونے والی 16 سے 59 سال کی خواتین میں سے صرف 16 فیصد نے واقعے کی رپورٹ پولیس میں درج کروائی ہے۔
اس عرصے میں مجموعی طور پر 16 سے 74 سال کی عمر کے 7,73,000 افراد ریپ کا نشانہ بنے ہیں، جس میں ریپ کی کوشش کے واقعات بھی شامل ہیں۔ ان میں سے بہت بڑی اکثریت خواتین کی ہے، جن کی کُل تعداد 6,18,000 ہے یعنی وہ مردوں سے چار گُنا زیادہ ریپ کا نشانہ بنی ہیں۔
ان اعداد و شمار کے مطابق 15 فیصد خواتین ایسی ہیں جو کسی اجنبی کے ہاتھوں ریپ کا شکار ہوئیں، جبکہ 85 فیصد واقعات میں ایسے لوگ ملوث تھے جو ان کے جاننے والے تھے۔ اس شرح میں سالہا سال سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
ڈرہم یونیورسٹی کے مرکز تحقیق برائے تشدد و استحصال کی ڈاکٹر ہینا بوس کہتی ہیں کہ ریپ کے 15 فیصد واقعات اجنبیوں نے کیے ہیں، یہ کوئی معمولی تعداد نہیں ہیں۔ جنسی استحصال کرنے کے عام واقعات دیکھیں، جیسا کہ چھونا، ہراساں کرنا، نامناسب اظہار وغیرہ تو زیادہ تر یہ حرکتیں اجنبی ہی کرتے ہیں، یہاں تک کہ عوامی مقامات پر بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ گو کہ ریپ اور جنسی حملے اجنبیوں کی جانب سے کم ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خواتین کو ان کی طرف سے ہراسگی یا حملے کا سامنا نہیں، جنہیں وہ نہیں جانتیں۔
فوجداری قانون کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر بوس کہتی ہیں کہ خواتین ریپ کے بعد پولیس کے پاس کیوں نہیں جاتیں؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ ان کی بات پر یقین نہیں کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ جنسی تشدد کے مقدمات کی پیروی اور مجرم کو سزا ہونے کے رحجان میں ہر سال کمی ہو رہی ہے۔ اب انہیں اعتماد نہیں کہ پولیس کے پاس رپورٹ کروانے کا کوئی فائدہ بھی ہیں۔ جب مقدمے کی پیروی کے امکانات کم ہوں اور سزا ملنے کے اس سے بھی کم تو کون پولیس کے پاس جائے گا؟
اس وقت جنسی حملوں اور ریپ کے مقدمات کی پیروی اور مجرموں کو سزا دینے کی شرح تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔ اس سرکاری ڈیٹا کے مطابق اس عرصے میں پولیس نے 55,130 مقدمات درج کیے، لیکن صرف 1.4 فیصد مقدمات میں ہی مجرم کو سزا ہوئی۔
ڈاکٹر بوس کہتی ہیں کہ جنسی حملے کسی عورت کے لیے جسم یا پرائیویسی کی ہی خلاف ورزی نہیں بلکہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر انہیں بُری طرح متاثر کرتے ہیں۔
خواتین کو قانونی حقوق فراہم کرنے لیے کام کرنے والے معروف ادارے ‘رائٹس آف ویمن’ کی ڈاکٹر استیلے دوبولے کہتی ہیں کہ تازہ ترین ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین پر مردوں کا تشدد کس حد تک موجود ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے میں نظامِ انصاف کتنا ناکارہ ہے۔
جواب دیں