صبا سلیم کو جب کے-الیکٹرک میں گرڈ آپریٹنگ آفیسر کے عہدے پر تعینات کیا گیا تو وہ ذرا پریشان تھیں۔ وہ ان پانچ خواتین میں سے ایک ہیں جنہیں گزشتہ ہفتے کے-الیکٹرک نے کراچی میں اپنے گرڈ اسٹیشنز سنبھالنے کی ذمہ داری ہے۔ وہ پہلی خواتین ہیں جنہیں اس اہم کام کو انجام دینے کی ذمہ داری ملی ہے، اس سے پہلے یہ سارا کام صرف مرد کیا کرتے تھے۔
وی پاور اور ورلڈ بینک کے انرجی سیکٹر مینجمنٹ اسسٹنس پروگرام کی 2020ء میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کے پاور سیکٹر کے اداروں میں خواتین کُل افرادی قوت کا صرف 4 فیصد ہیں۔
صبا نے ‘عرب نیوز’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب مجھے لیٹر ملا تو میں پریشان ہو گئی تھی کہ میں یہ کام کر بھی پاؤں گی یا نہیں۔ اب میں سمجھتی ہوں کہ میں اپنی ذمہ داریاں اچھی طرح انجام دیتی ہوں۔ یہ بیٹھنے والا کام نہیں ہے، ہمیں ہر وقت ہوشیار رہنا پڑتا ہے اور آٹھ سے نو گھنٹے کی ڈیوٹی کے دوران مسلسل حرکت میں رہتے ہیں۔
پاور گرڈ بجلی کی ترسیل کے نیٹ ورک کا حصہ ہوتا ہے جو صارفین کو بجلی فراہم کرتا ہے۔ صبا سلیم اور ان کی دو ساتھی خواتین نیلمہ نواب اور طوبیٰ خان کے-الیکٹرک کے گلشن گرڈ اسٹیشن کو چلانے کی ذمہ دار ہیں۔ یہ شہر میں کے-الیکٹرک کی 68 تنصیبات میں سے ایک ہے، جن سے 1.5 شہریوں کو بجلی فراہم کی جاتی ہے۔
حال ہی میں اس عہدے پر تعینات ہونے والی دیگر خواتین سعدیہ سحر اور علیشہ انصاری ہیں، جنہیں قیوم آباد گرڈ اسٹیشن پر ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔
کے-الیکٹرک کی مارکیٹنگ اینڈ کمیونی کیشن آفیسر سعدیہ دادا کہتی ہیں کہ یہ ملکی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ خواتین کو پاور سیکٹر میں گرڈ آفیسر لگایا گیا ہو۔ اس کے علاوہ کے-الیکٹرک نے خواتین میٹر ریڈرز کو بھی اپنی ٹیم میں شامل کیا ہے۔
پاکستان میں خواتین اور مردوں کی آبادی تقریباً برابر ہے، لیکن عالمی اقتصادی فورم کے جینڈر گیپ انڈیکس 2020ء کے مطابق پاکستان صنفی برابری میں بہت پیچھے ہے، 153 ممالک میں 151 ویں نمبر پر۔ ملک کی تقریباً 80 فیصد خواتین ایسی ہیں جنہیں باقاعدہ معیشت کا حصہ بننے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔
بہرحال، ان نئی گرڈ آپریٹرز کا کہنا ہے کہ اس ملازمت کے لیے بھرتی ہونے کا عمل آسان نہیں تھا۔ ایک مسئلہ خاندان کا بھی تھا جو نہیں سمجھتا تھا کہ خواتین اس ٹیکنیکل کام کے لیے مناسب ہیں۔ نیلم حسن کہتی ہیں کہ "جب مجھے لیٹر ملا تو سب پریشان ہو گئے تھے کیونکہ کوئی نہیں سمجھتا تھا کہ خواتین اس شعبے میں بھی کام کر سکتی ہیں، کیونکہ یہ ایک ٹیکنیکل فیلڈ ہے اور ہمارا کام آپریشنل لیول کا ہے۔ اس لیے میرے خاندان کو میری سیفٹی کے حوالے سے پریشانی تھی۔”
بہرحال، نیلم نے بالآخر اپنے خاندان کو قائل کر لیا کہ خواتین بھی ایسی ٹیکنیکل فیلڈ کا حصہ بن سکتی ہیں۔
صبا سلیم کا کہنا ہے کہ انہیں فخر ہے کہ انہوں نے اور ان کی ساتھیوں نے معاشرے کے ان ممنوعات کو توڑا ہے کہ خواتین ان کاموں کے لیے مناسب نہیں۔ "یہ تاثر کہ خواتین کسی مخصوص شعبے میں کام نہیں کر سکتیں، ان کے لیے دروازے بند کر دیتا ہے، لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں کہاں کھڑی ہوں۔ ایسے تاثر کی وجہ سے خواتین کے لیے ملازمت کے مواقع بھی محدود ہو جاتے ہیں لیکن میری موجودگی ثابت کرتی ہے کہ خواتین کسی سے پیچھے نہیں۔ بس انہیں ضرورت ہے مواقع دینے کی۔”
جواب دیں