اقوامِ متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کی وبا نے 2020ء میں جنوبی ایشیا میں بچوں کی مزید 2,28,000 اور ماؤں کی 11,000 اموات میں بالواسطہ اپنا کردار ادا کیا ہے۔
’یونیسیف’ کی تحقیق کے مطابق بھارت، پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش، افغانستان اور سری لنکا میں صحت کی ضروری خدمات تک رسائی میں کمی کو اس کی بڑی وجہ قرار دیا ہے۔ یہ خطہ 1.8 ارب کی بڑی آبادی رکھتا ہے۔
ان اہم خدمات کی عدم دستیابی نے غریب خاندانوں کی صحت اور غذائیت دونوں پر بدترین اثرات مرتب کیے ہیں۔
ریجنل ڈائریکٹر جارج لاریا-آدجی نے کہا کہ ان اہم سروسز کے خاتمے غریب خاندانوں کی صحت اور غذائیت پر بدترین اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ ایسے بچوں اور ماؤں کی ان خدمات تک رسائی مکمل طور پر بحال کی جائے کہ جنہیں ان کی سخت ضرورت ہے اور ساتھ ہی وبا کے ان ایام میں ان خدمات کے استعمال میں تحفظ کا احساس دینے کے لیے بھی ہر قدم اٹھانا چاہیے۔
رپورٹ میں یہ اندازے مشاہدے میں آنے والی حقیقی تبدیلیوں اور خطے میں وبا سے پہلے کے ڈیٹا کو استعمال کر کے ماڈلنگ کے مختلف طریقوں سے لگائے گئے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں صرف 2019ء میں 5 سال سے کم عمر کے 14 لاکھ بچے مرے تھے کہ جن میں سے 63 فیصد نومولود تھے۔
خطے کے ممالک نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دنیا بھر کی طرح سخت لاک ڈاؤن اقدامات اٹھائے۔ کئی پابندیاں اب نرم تو ہو چکی ہیں لیکن بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں تعلیمی ادارے اب بھی بند ہیں۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ گو کہ ہیلتھ سروسز بند نہیں کی گئیں، لیکن ان تک رسائی حاصل کرنے والوں اور ہسپتالوں کا رُخ کرنے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔
مثلاً بنگلہ دیش اور نیپال میں انتہائی کم غذائیت کے شکار چھوٹے بچوں کے علاج میں 80 فیصد کمی آئی ہے جبکہ پاکستان اور بھارت میں بچوں کی ویکسینیشن میں بہت تیزی سے زوال آیا ہے۔
جنوبی ایشیا میں 420 ملین بچوں وبا کی وجہ سے اسکولوں سے باہر ہیں، اس لیے رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ 90 لاکھ بچے کبھی اسکول واپس نہ آئیں۔
ایسا ہونے کی صورت میں بچپن ہی میں شادی کے خدشات بڑھیں گے، کم عمری میں 4 لاکھ بچیوں کو حمل ٹھہر سکتا ہے اور ساتھ ہی ماؤں اور شیر خوار بچوں کی اموات اور چھوٹے بچوں میں ناکافی غذائیت جیسے معاملات بھی سنگین ہو سکتے ہیں۔
جواب دیں