’کیمیکل کاسٹریشن’ یعنی کیمیائی طور پر نامرد کرنے کا مطلب ہے مردوں کے ہارمونز testosterone کو ادویات کے ذریعے کم کرنا، جو گولیوں یا انجکشن کی صورت میں دی جاتی ہیں۔
’ڈوئچے ویلے’ سے بات کرتے ہوئے جرمنی کے نیورولوجسٹ اور فورنزک نفسیات دان یورگن ملر نے کہا کہ اس کے اشارے تو ملتے ہیں کہ یہ طریقہ کام کرتا ہے، لیکن کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں کہ یہ عمل کتنا مؤثر ہے۔
کیمیکل کاسٹریشن کی مؤثریت کا جائزہ لینے کے لیے اب تک کوئی بین الاقوامی تحقیق نہیں کی گئی۔ لیکن اس کے باوجود کئی ملکوں میں جنسی جرائم کے مرتکب افراد کو کیمیائی طور پر نامرد کیا جاتا ہے لیکن سزا کے طور پر نہیں، بلکہ علاج کی حیثیت سے اور رضاکارانہ بنیادوں پر۔
لیکن پاکستان میں جنسی مجرم کو بطور سزا کیمیائی طور پر نامرد کرنے کا قانون متعارف کروانے کے لیے کام جاری ہے۔ تعزیراتِ پاکستان کے تحت ریپ کرنے والوں کو عمر قید یا سزائے موت دی جاتی ہے لیکن ملک میں بڑھتے ہوئے واقعات اور چند ہائی پروفائل کیسز سامنے آنے کے بعد کچھ اضافی اقدامات اٹھانے پر غور کیا جا رہا ہے، جن میں کیمیکل کاسٹریشن بھی شامل ہیں۔
2017ء میں ضلع قصور میں ایک چھ سالہ بچی کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ملک بھر میں زبردست مظاہرے ہوئے اور عوام کی بڑی تعداد اس بچی کو انصاف دلانے کے لیے سڑکوں پر آئی۔ تحقیقات کے دوران DNA ٹیسٹ ثابت ہونے پر ایک شخص کو مجرم پایا گیا اور اسی سال اسے پھانسی دے دی گئی۔
پھر گزشتہ سال ایک مرتبہ پھر ایک بھیانک واقعہ پیش آیا، جس میں لاہور کے قریب موٹر وے پر ایک خاتون کے ساتھ اس کے دو بچوں کے سامنے گینگ ریپ کیا گیا۔ کافی تگ و دو کے بعد مجرموں کو گرفتار کر لیا گیا اور فی الحال ان کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
اس واقعے سے ملک میں جنسی جرائم کرنے والوں کے خلاف سزاؤں کو سخت کرنے کے مطالبے شدت پکڑ گئے، یہاں تک کہ خود وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ریپ کرنے والوں کو سرِ عام پھانسی دی جانی چاہیے، لیکن وہ بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے ایسا نہیں کر رہے کیونکہ اس سے یورپی یونین کے ساتھ پاکستان کی تجارت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ "میری رائے میں ‘کیمیکل کاسٹریشن’ کا قدم اٹھانا چاہیے۔ ہمیں ایسے نئے قوانین کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بعد مجرم کوئی جنسی عمل نہیں کر پائیں گے۔”
لیکن کیا واقعی ‘کیمیکل کاسٹریشن’ ریپ سے روک سکتی ہے؟
بلاشبہ یہ عمل جنسی تحریک کو گھٹانے میں مؤثر پایا گیا ہے، لیکن اس سے جارحانہ رویہ نہیں روکا جا سکتا۔ یہاں تک کہ testosterone گھٹ کر صفر بھی ہو جائے، تب بھی اس شخص کے ہاتھوں دوبارہ جرم ہونے کا امکان ختم نہیں کیا جا سکتا۔ جرمنی کی ڈورٹمنڈ یونیورسٹی کے سوشیولوجسٹ آندرے کونیگ کہتے ہیں کہ کسی پر ظلم کرنے کے لیے اس کا مردانہ طور پر مکمل فعال ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص جنسی فعل نہ بھی کر پائے تو اس کا جارحانہ رویّہ کئی مسائل جنم دے سکتا ہے۔
سنجیدہ سائیڈ افیکٹس اور اخلاقی پہلو
‘کیمیکل کاسٹریشن’ ایک فوری عمل نہیں ہے، اس کے لیے ادویات ایک مخصوص عرصے یا ہمیشہ کے لیے کارگر ہوتی ہیں۔ پھر ان کے بہت شدید سائیڈ افیکٹس بھی ہوتے ہیں جیسا کہ چھاتی کا بڑھنا، ذہنی تناؤ، ہڈیوں کے بھربھرے پن کے خطرات وغیرہ۔
جرمنی اور دوسرے یورپی ملکوں میں ‘کیمیکل کاسٹریشن’ مجرم کی رضامندی سے ہوتی ہے یعنی وہ رضاکارانہ طور پر خود کو پیش کرے۔ یورگن ملر کہتے ہیں کہ کچھ مجرم ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنی حرکت پر سخت ندامت ہوتی ہے اور انہیں خود سے گھن آتی ہے، ان کے لیے یہ طریقہ گویا کفارہ ہے۔ لیکن ادویات سے علاج ہی کافی نہیں بلکہ مجرم کے نفسیاتی علاج کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جنسی جرائم کے مرتکب افراد سے نمٹنے کے لیے صرف کیمیائی علاج کافی نہیں بلکہ یہ ایک جامع طریقے کا محض ایک حصہ ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ بطورِ سزا کسی کو ایسی ادویات دینا جس کے بہت سخت سائیڈ افیکٹس ہوں، طبی اخلاقیات کے لحاظ سے ایک بڑا مسئلہ ہے۔
برطانیہ اور جرمنی میں قیدی اُس وقت ‘کیمیکل کاسٹریشن’ کا انتخاب کرتے ہیں جب انہیں لگتا ہے کہ ایسا کروانے سے ان کی قید کا دورانیہ کم ہوگا اور انہیں قبل از وقت ضمانت پر رہائی مل سکتی ہے۔
آکسفرڈ یوہیرو سینٹر فار اپلائیڈ ایتھکس میں پروفیسر اپلائیڈ فلاسفی تھامس ڈوگلس کا کہنا ہے کہ ‘کیمیکل کاسٹریشن’ کا عمل جیل کے نظام کی اصلاحات کا متبادل نہیں۔ وہ مجرم کی اصلاح کرنے اور اس کو معاشرے کا کارآمد حصہ بننے کے حامی ہیں۔
کیمیکل اور سرجیکل کاسٹریشن
ماضی اور حال میں یورپ میں کیمیکل اور سرجیکل کاسٹریشن کی مثالیں ملتی ہیں، لیکن صرف انتہائی جارح مزاج اور پُر تشدد جنسی مجرموں کے لیے۔ چیک جمہوریہ یورپ کا واحد ملک ہے کہ جہاں سرجیکل کاسٹریشن کی سزا موجود ہیں، جس میں مرد کے جسمانی غدود کاٹ دیے جاتے ہیں۔ میسارک یونیورسٹی کی سوشیولوجسٹ کترینا لسکوا کہتی ہیں کہ یہ انتہائی جارح مزاج مجرموں کو قابو کرنے کا واحد قابلِ بھروسہ طریقہ ہے۔ سرجیکل کاسٹریشن کا انتخاب کرنے والے مجرموں کی تعداد بہت کم ہے اور وہ اس کا انتخاب رضاکارانہ طور پر کرتے ہیں۔
2012ء تک جرمنی میں بھی جنسی مجرموں کو سرجیکل کاسٹریشن کا آپشن دیا جاتا تھا۔ لیکن بعد ازاں مجرموں پر جسمانی تشدد اور ان کو غیر انسانی اور گھٹیا سزائیں دینے کے خلاف کونسل آف یورپ کی کمیٹی کی جانب سے تحفظات کے بعد اس کا خاتمہ کر دیا گیا۔
اس وقت جرمنی میں صرف کیمیکل کاسٹریشن کا آپشن موجود ہے جو ذہنی طور پر معذور یا انتہائی خطرناک جنسی مجرموں کو ایک ہائی سکیورٹی ہسپتال میں دیا جاتا ہے۔
لیکن کیمیکل کاسٹریشن کے بعد دوبارہ جرم کرنے کے امکانات کم ہوتے ہیں یا نہیں؟ اس حوالے سے جرمنی میں اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ آندرے کونیگ کہتے ہیں کہ میں نے زندگی میں کبھی ایسے کسی مریض سے ملاقات نہیں کی جس نے یہ ادویات لی ہوں اور اس کے جنسی تخیّلات (fantasies) میں کمی آئی ہو یا اس میں جنسی تحریک پیدا ہی نہ ہوتی ہو۔ آپ خیالات کو نہیں روک سکتے۔ بچوں پر تشدد کرنے والا جب ‘کیمیکل کاسٹریشن’ کرواتا ہے تو بھی اس کے خیالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ ہو سکتا ہے ایسا بار بار نہ ہوتا ہو، لیکن پھر بھی ایسا ہوتا ہے۔”
لیکن پاکستان ‘کیمیکل کاسٹریشن’ کو جنسی مجرموں کے لیے رضاکارانہ طور پر نہیں، بلکہ لازمی حیثیت سے متعارف کروانے پر غور کر رہا ہے۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے اقدامات انتخابات میں ووٹ تو دلا سکتے ہیں، لیکن ایسے واقعات کی روک تھام میں کچھ خاص کارگر نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کی نظر میں ‘کیمیکل کاسٹریشن’ ایک طریقۂ علاج ہیں، سزا نہیں۔
سوئٹزرلینڈ کے ZHAW انسٹیٹیوٹ آف delinquency سے وابستہ کرمنولوجسٹ ڈرک بائیر کہتے ہیں کہ ‘کیمیکل کاسٹریشن’ معاشرے کو محفوظ نہیں بناتی لیکن اس کے باوجود دائیں بازو کی یا قدامت پسند جماعتیں اسے جنسی مجرموں کے خلاف ایک حل کی حیثیت سے پیش کرتی ہیں۔
پاکستان میں خواتین اور بچوں کے لیے کام کرنے والے ادارے بھی اس قانون پر تنقید کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ‘کیمیکل کاسٹریشن’ جیسے مختصر مدتی اور ظاہری اقدامات اٹھانے کے بجائے اصلاحات کا ایسا عمل شروع کرنا چاہیے جو دیرپا ہو۔
جواب دیں