پاکستان میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں شادی کی کم از کم عمر 16 سال ہے، سوائے صوبہ سندھ کے کہ جہاں کے قانون کے مطابق شادی کے وقت لڑکے یا لڑکی کی عمر کم از کم 18 سال ہونی چاہیے۔
پاکستان نے 1990ء میں بچوں کے حقوق کے عالمی کنونشن (CRC) پر دستخط کیے تھے، اور ان کے حقوق کے تحفظ اور کم عمری کی شادی کے خاتمے کا عہد رکھتا ہے لیکن ملک کے کئی حصوں میں آج بھی کم عمری کی شادی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے (PDHS) کے 2017-18ء ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے پشاور کے کارکن قمر نسیم کہتے ہیں کہ اس وقت 3.3 فیصد لڑکیوں کی شادیاں 15 سال سے بھی کم عمر میں ہو رہی ہے جبکہ 18.3 فیصد لڑکیاں 18 سال سے کم عمر میں بیاہ دی جاتی ہیں۔
ملک بھر میں 4.7 فیصد ایسے لڑکے بھی ہیں کہ جن کی شادی 18 سال سے کم عمر میں ہوئی ہے۔ قمر نسیم نے کہا کہ کم عمری کی شادی کا چلن پاکستان کے سابق قبائلی علاقوں میں بہت عام ہے، جہاں ملک بھر کی 35 فیصد بچپن کی شادیاں ہوتی ہیں۔
‘ڈوئچے ویلے’ کے مطابق خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی معروف شخصیت مختاراں مائی کہتی ہیں کہ صوبہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں زیادہ تر لڑکیوں کی شادی کم عمر میں ہی کر دی جاتی ہے۔ "وٹے سٹے کی شادیاں بہت عام ہیں۔ خوں بہا، قبائلی تنازعات اور ملکیت کے جھگڑے نمٹانے کے لیے بھی نو عمر لڑکیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح دے دیا جاتا ہے۔”
حال ہی میں ایک رکن اسمبلی کی جانب سے ایک کم عمر بچی سے شادی کرنے کی خبروں نے کافی ہنگامہ پیدا کیا تھا اور کئی حلقوں سے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس واقعے پر سخت کارروائی کرے۔ یہ جمعیت علمائے اسلام ف (جے یو آئی ف) کے 64 سالہ مولانا صلاح الدین تھے کہ جنہوں نے ایک 14 سالہ بچی سے شادی کی ہے۔
اس خبر نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا اور سوشل میڈیا پر بہت ہنگامہ کھڑا ہوا۔ یہاں تک کہ رکن اسمبلی سے استعفے کا مطالبہ تک کیا گیا۔ سوِل سوسائٹی کارکنوں نے اس شادی کی بھرپور مذمت کی اور اسے بچی کے بنیادی حقوق کا استحصال قرار دیا، ساتھ ہی اس کی صحت کو لاحق سنجیدہ خطرے پر بھی بات کی۔
خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے قیصر خان کہتے ہیں کہ پاکستان میں کم عمری کی شادی کی بڑی وجہ غربت ہے۔ "سابق قبائلی علاقوں اور ضلع ملاکنڈ میں اپنی بچیوں سے شادی کے خواہشمند افراد سے 5 لاکھ سے 20 لاکھ روپے مانگتے ہیں۔ جبکہ ایسے خواہشمند زیادہ تر امیر لوگ ہوتے ہیں یا پہلے سے شادی شدہ ہوتے ہیں۔ مذہبی و قبائلی رہنما اور سرکاری انتظامیہ سب اس عمل میں شامل ہیں۔”
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی حبیبہ سلمان کہتی ہیں کہ چترال میں کم عمر لڑکیوں سے شادی عام ہے۔ یہاں چھوٹی بچیوں کو 25 لاکھ روپے میں بیچ دیا جاتا ہے۔
کوئٹہ سے ایک اور کارکن، جنہوں نے نام نہیں بتایا، کہا کہ صوبہ بلوچستان میں امیر لوگ شادی کے نام پر کم عمر افغان یا دیگر مقامی پشتون لڑکیاں خریدنے کے لیے مشہور ہیں۔ قلعہ عبد اللہ، پشین، ژون اور کوئٹہ میں عام طور پر لوگ نوعمر لڑکیوں کے لیے 10 سے 40 لاکھ روپے میں ادا کرتے ہیں۔
حبیبہ سلمان کم عمری کی شادی کے خلاف مؤثر قدم نہ اٹھانے پر حکومت پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس، چائلڈ پروٹیکشن بیوروز اور دیگر متعلقہ ادارے کم عمری کی شادی کی خبروں کے خلاف ردعمل دکھانے اور سخت اقدامات اٹھانے میں ناکام ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی شازیہ خان کہتی ہیں کہ کم عمری کی شادیاں روکنے میں مذہبی قیادت اہم کردار ادا کر سکتی ہے، جبکہ سیاست دان اور سابق چیئرپرسن سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق نسرین جلیل کہتی ہیں کہ اس کا سبب ملک کا قبائلی نظام اور پدر شاہی ہے۔
ڈاکٹر ٹیپو سلطان نے قبل از وقت شادی اور اس سے حمل ٹھہرنے کی صورت میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ خون کی کمی، ہارمونل خرابیاں اور فسٹولا جیسے مسائل کم عمری کی شادیوں سے جنم لیتے ہیں۔ "کم عمری میں حمل ٹھہر جانے سے لڑکیوں اور پیدا ہونے والے بچوں میں ناکافی غذائیت کا مسئلہ بھی ہوتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ماں خود بڑھتی عمر میں ہو، وہ اپنے بچوں کو کس طرح غذائیت دے سکتی ہے اور اسے صحت مند رکھ سکتی ہے؟”
Pingback: پاکستانی خاتون کی جدوجہد کا نتیجہ، امریکا میں "نائلہ قانون" منظور - دی بلائنڈ سائڈ