عالمی ادارۂ صحت (WHO) کی ایک تازہ ترین رپورٹ نے دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے ناقابلِ یقین اور بھیانک حد تک پھیلاؤ کو ظاہر کیا ہے، جو وبا کے ساتھ بد سے بدتر صورت اختیار کر چکا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا میں ہر تین میں سے ایک خاتون کو زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے قریبی ساتھی یا کسی دوسرے شخص کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد یا دونوں کی جانب سے بھی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ اعداد و شمار کووِڈ-19 کی وبا سے پہلے کے ہیں، اب تو صورت حال کہیں زیادہ گمبھیر ہو چکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق نوجوان خواتین اپنے قریبی ساتھیوں کے ہاتھوں جسمانی اور جنسی تشدد کے خطرے کا زیادہ سامنا ہے کیونکہ 15 سے 24 سال کی عمر کی ایک چوتھائی خواتین تو 20 کے پیٹے میں ہی اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے اس ادارے نے عالمی سیاسی قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین کے تحفظ کا طریقِ کار طے کر کے اور سپورٹ سروسز کو بہتر بنا کر ان پر ہونے والے تشدد کا خاتمہ کرے۔ ان میں خواتین کے لیے مخصوص نظامِ صحت کی تیاری، تعلیم کے ذریعے تشدد کے حوالے شعور اجاگر کرنا، خواتین کے تحفظ کے لیے حکمت عملیاں مرتب کرنے میں سرمایہ کاری اور تبدیلی کے عمل کے لیے پالیسی سازی شامل ہیں، مثلاً یکساں تنخواہ اور صنفی بنیاد پر برابری جیسے قوانین بنانا۔
یہ رپورٹ 2000ء سے 2018ء کے درمیان جمع کیے گئے ڈیٹا کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے خواتین پر تشدد کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی تحقیق ہے، جسے عالمی ادارۂ صحت نے تیار کیا ہے۔ جس کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد ہر ملک میں عام ہے، اور کروڑ ہا خواتین اور خاندان اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔
اپنی نوعیت کی اس جامع ترین تحقیق میں پایا گیا ہے کہ 2013ء سے 2018ء کے دوران 15 سال سے زیادہ عمر کی تقریباً 736 ملین خواتین اور لڑکیوں کو کم از کم ایک قسم کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق قریبی ساتھی کے ہاتھوں تشدد دنیا بھر میں خواتین پر ظلم کی سب سے عام شکل ہے جو 641 ملین خواتین کو متاثر کر رہی ہے۔
"کم ترین ترقی یافتہ ممالک” میں 37 فیصد کے ساتھ قریبی ساتھی کا تشدد سب سے زیادہ عام ہے، جس میں بر اعظم آسٹریلیا، جنوبی ایشیا اور سب-صحارن افریقہ نمایاں ہیں۔ لیکن جن علاقوں میں شرح کم ہے، وہ بھی بہت زیادہ ہی ہے جیسا کہ وسط ایشیا میں 18 فیصد، مشرقی ایشیا میں 20 فیصد، جنوب مشرقی ایشیا میں 21 فیصد اور یورپ میں 16 سے 23 فیصد خواتین کو زندگی میں ایک بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
کیونکہ یہ تمام تر ڈیٹا صرف 2018ء تک کا ہے اس لیے اس میں کووِڈ-19 کی آمد کے بعد کے اعداد و شمار شامل نہیں۔ اس وبا کی آمد کے بعد سے گھریلو تشدد میں دنیا بھر میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ چند ملکوں میں ہیلپ لائنز پر آنے والی کالز میں پانچ گُنا تک اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
لیکن کووِڈ-19 کے برعکس خواتین پر تشدد صرف ویکسین سے ختم نہیں ہو سکتا۔ اسے انتہائی سوچ سمجھ کر اور حکومتوں، مقامی برادریوں اور انفرادی سطح پر شخصیات کی مسلسل کوشش کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے تاکہ رویّے بدلے جائیں، خواتین اور لڑکیوں کو مواقع اور خدمات تک رسائی بہتر بنائی جائے اور ایک صحت مند اور باہمی طور پر پُر وقار تعلق کو مضبوط کیا جائے۔
رپورٹ نے قریبی ساتھیوں کے ہاتھوں تشدد اور اس کے بعد کسی دوسرے کے ہاتھوں جنسی تشدد کو سب سے عام قسم قرار دیا۔ گو کہ خواتین کو دنیا بھر میں اپنے رشتہ داروں اور مالکان کے ہاتھوں بھی جسمانی تشدد کی مختلف اقسام کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ زن کشی (femicide) اور انسانی اسمگلنگ بھی عام ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کا تقریباً 49 فیصد نشانہ خواتین ہوتی ہیں اور اگر نوعمر لڑکیوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ شرح 72 فیصد تک چلی جاتی ہے۔
تشدد خواتین پر سخت ذہنی و جسمانی اثرات ڈالتا ہے، اور خاتمے کے بعد بھی بہت عرصے تک اس کے زخم مندمل نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ سے خواتین کو ذہنی تناؤ اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دیگر نفسیاتی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جسمانی اثرات بلکہ امراض کا نشانہ بھی بنتی ہیں مثلاً HIV جیسے خطرناک امراض کی شرح بھی تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین میں زیادہ ہے۔ یعنی اس کے اثرات پورے معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔
جواب دیں