ہر پانچواں مرد سمجھتا ہے کہ صنفی بنیاد پر تنخواہوں میں فرق کی خبریں ‘جعلی’ ہیں

کووِڈ-19 سے بحالی کے اس دور میں کئی ملکوں کے لیے صنفی بنیاد پر تنخواہوں میں فرق کا خاتمہ کرنا مشکل ہے۔ ایک عالمی پول میں ظاہر ہوا ہے کہ تقریباً ایک چوتھائی مرد یہ سمجھتے ہیں کہ صنفی بنیاد پر تنخواہوں میں فرق کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

‏28 ممالک میں کیے گئے سروے میں ہر 10 میں سے 8 افراد نے یہ تو تسلیم کیا کہ مردوں اور خواتین کی تنخواہوں میں فرق سے نمٹنا اہم ہے، لیکن ان میں سے آدھے ایسے ہیں جو موجودہ عالمی بحران میں اسے ایسا مسئلہ نہیں سمجھتے جسے اولین ترجیح دینی چاہیے۔ اپسوس MORI اور کنگز کالج لندن کے گلوبل انسٹیوٹ فار ویمنز لیڈر شپ (GIWL) کی جانب سے شائع کردہ پول کے مطابق ہر 10 میں سے ایک مرد کے لیے تو یکساں تنخواہ کا معاملہ اہم ہے ہی نہیں۔

سروے میں ہر پانچ میں سے ایک مرد سمجھتا ےہ کہ اس مسئلے کے حوالے سے میڈیا پر جو خبریں آ رہی ہیں وہ ‘جعلی’ ہیں۔

یہ نتائج عین اُس وقت سامنے آئے ہیں جب اس امر کے نمایاں شواہد موجود ہیں کہ خواتین وبا کے ہاتھوں زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ آسٹریلیا کی سابق وزیر اعظم اور

آسٹریلیا کی سابق وزیر اعظم اور GIWL کی چیئرویمن جولیا گیلارڈ نے کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ خواتین اس بحران سے مزید متاثر نہ ہوں، تو ہمیں یکساں تنخواہ کے معاملے کو ایجنڈے میں اوپر رکھنا ہوگا۔

صحت کے شعبے میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے، جو اس وقت وبا کے خلاف صفِ اول میں ہیں۔ ساتھ ساتھ ہوٹل اور ریٹیل کے شعبوں میں ۂھی کہ جو وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ہم نے اسکول بند ہونے کی وجہ سے بچوں کی دیکھ بھال کا پورا بوجھ بھی خواتین پر پڑا ہے۔

لاک ڈاؤنز کے نتیجے میں خواتین پر گھریلو تشدد میں بھی بہت اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

پول میں حصہ لینے والوں کے مطابق کام کے طریقوں میں لچک اور گھریلو تشدد کی شکار خواتین کی مدد میں اضافے کو ترجیح ملنی چاہیے تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ کووِڈ-19 سے نمٹنے کی کوششوں سے خواتین کو درپیش مسائل کا خاتمہ ہوگا۔

یو این ویمن کے مطابق عالمی سطح پر خواتین مردوں کے مقابلے میں 16 فیصد کم کماتی ہیں۔

یورپ، شمالی و جنوبی امریکا، ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے 20,520 افراد سے کیے گئے اس سروے کے مطابق 42 فیصد نے کہا کہ مردوں اور عورتوں کی تنخواہوں میں موجود فرق کو کم کرنے کی ضرورت ہے لیکن اسے فی الوقت ترجیح دینے کی ضرورت نہیں، جبکہ 36 فیصد نے اسے ترجیح بھی سمجھا۔

سب سے زیادہ حمایت چلی، جنوبی افریقہ اور فرانس میں دیکھی گئی اور سب سے کم روس، نیدرلینڈز اور امریکا میں۔

سروے میں شامل آدھے سے زیادہ افراد کا کہنا تھا کہ ملازمین کو پتہ ہونا چاہیے کہ ایک ہی کام کی ان کے ساتھ کام کرنے والوں کو کتنی تنخواہ مل رہی ہے۔ اس کی حمایت خواتین میں مردوں سے زیادہ رہی۔

ابھی گزشتہ جمعے کو ہی یورپی یونین نے کہا تھا کہ اس امر کے واضح شواہد موجود ہیں کہ صنفی مساوات کے لیے اب تک ملنے والی کامیابیوں کے اثرات اب وبا کے ہاتھوں متاثر ہو رہے ہیں۔

‏GIWL سروے میں شامل نصف لوگوں نے کہا کہ وبا سے نمٹنے کے بعد اس سے پہلے کے حالات بھی بحال ہو جائیں گے۔ لیکن جرمنی، اسپین اور ترکی میں 19 فیصد افراد سمجھتے ہیں کہ بحران کی وجہ سے خواتین کے لیے حالات بگڑیں گے جبکہ سعودی عرب نے میں 38 فیصد نے کہا کہ خواتین کے لیے حالات بہتر ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے