پچھلے چھ مہینوں کے دوران تقریباً 20 فیصد افغان خواتین نے یا تو صحافت چھوڑ دی ہے، یا پھر اداروں نے ہی انہیں نکال دیا ہے۔ جس کی وجہ صحافیوں کے قتل کے واقعات میں ہونے والا اضافہ ہے جس میں اب بہت تیزی آ گئی ہے۔
افغان جرنلسٹس سیفٹی کمیٹی (AJSC) کا کہنا ہے کہ حالیہ چند مہینوں میں 300 سے زیادہ خواتین نے صحافت چھوڑی ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے درپیش مالی مشکلات کے علاوہ اس کی ایک اہم وجہ "ٹارگٹ کلنگ” کی تازہ لہر بھی ہے۔
رپورٹ عین اس وقت سامنے آئی ہے جب عالمی سطح پر یومِ خواتین منایا گیا ہے لیکن افغانستان میں حال یہ ہے کہ ابھی پچھلے ہفتے ہی ‘انعکاس’ ٹی وی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ایک ہی دن قتل کیا گیا۔ اسی شہر جلال آباد میں اور اسی چینل سے تعلق رکھنے والی ایک اور خاتون صحافی کو دسمبر میں قتل کیا گیا تھا۔
اب ‘انعکاس’ ٹی وی کا کہنا ہے کہ تمام خواتین عملے کی اراکین گھروں پر رہیں، جب تک کہ حالات بہتر ہو جائیں۔ ادارے میں پریزینٹر نادیہ مومند کہتی ہیں کہ مجھے صحافت پسند ہے، لیکن جان اس سے زیادہ عزیز ہے۔ میں نہیں جاؤں گی جب تک کہ وہ بکتر بند گاڑی نہ بھیجیں۔
ڈائریکٹر ‘انعکاس’ ٹی وی زلمی لطیفی کہتے ہیں کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ مزید خواتین بھرتی نہیں کریں گے۔
AJSC کا کہنا ہے کہ افغانستان نے رواں سال عالمی یومِ خواتین اس طرح منایا ہے کہ اس کے صحافت سے وابستہ افراد کو جان کا خطرہ لاحق ہے، خاص طور پر خواتین کو کہ جن پر حملے کہیں بڑھ چکے ہیں۔
تشدد کی حالیہ لہر میں صحافیوں کے علاوہ مذہبی رہنما، انسانی حقوق کے کارکن اور جج سب نشانہ بنے ہیں۔ کئی اپنی سرگرمیاں محدود کر چکے ہیں جبکہ دیگر ملک ہی چھوڑ گئے ہیں۔
یہ حملے اس وقت ہو رہے ہیں جب افغانستان میں امریکا کے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کی کیفیت ہے۔ جو بائیڈن انتظامیہ گزشتہ سال طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو واپس لینے پر غور کر رہی ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکا کو رواں سال مئی میں اپنے تمام فوجی نکالنے کی راہ ہموار ہوئی تھی لیکن اب لگتا ہے معاملہ طول کا شکار ہو جائے گا۔
جواب دیں