لیکسی آلفرڈ کی عمر صرف 21 سال تھی، جب وہ دنیا کے ہر ملک میں قدم رکھ چکی تھیں۔ اب ان کی عمر 22 سال ہے اور وہ انسٹاگرام، یوٹیوب اور اپنی ویب سائٹ کے ذریعے دنیا بھر میں ابھرتے ہوئے سیاحوں کا حوصلہ بڑھا رہی ہیں اور انہیں نئی منزلوں سے روشناس کر رہی ہیں۔
آلفرڈ نے سفر کا آغاز بہت کم عمری ہی میں شروع کر دیا تھا کیونکہ ان کی والدہ ایک ٹریول ایجنسی کی مالک ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ کم عمری میں ہی والدہ کے ساتھ سفر و سیاحت پر نکل جاتی تھیں۔ سفر ان کی زندگی کا کتنا بڑا حصہ ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ 18 سال کی عمر میں وہ تقریباً 70 ممالک دیکھ چکی تھیں۔ ‘عالمی یومِ خواتین’ پر ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ "12 سال کی عمر سے میرا خواب تھا کہ میں ایک سال ایسا گزارنا چاہتی ہوں جس میں نہ اسکول ہو اور نہ کوئی کام ہو۔ تو میں پیسے بچائے، بہت سارے پیسے، تاکہ میں ایک سال میں وہ سب کچھ کر سکوں اور دنیا گھوم سکوں۔”
شمالی کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی آلفرڈ نے بتایا کہ "میں ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ مقامات دیکھنا چاہتی تھی، تب اچانک ذہن میں سوال آیا کہ دنیا میں کُل ممالک کتنے ہیں؟ تب میں 18 سال کی تھی۔ گوگل کیا تو ذہن میں آیا کہ سب سے کم عمر میں کس نے سارے ممالک دیکھ رہے ہیں تو گنیز ورلڈ ریکارڈز میں جیمز ایسکیتھ کا نام آیا۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ اگر اس ریکارڈ کی توڑنے کی کوشش بھی نہ کی تو ساری زندگی افسوس رہے گا۔”
اس عظیم سفر کے لیے اخراجات کے حوالے سے آلفرڈ نے کہا کہ "میرے سارے منصوبے سیلف فنڈڈ تھے۔ میں بہت کم عمری سے ہی کام کرتی تھی، اپنی والدہ کی ٹریول ایجنسی میں۔ اسے میری قسمت کہیں کہ نہ صرف پیسے کما رہی تھی بلکہ سفر کے بارے میں بھی بہت کچھ سیکھ رہی تھی۔ تو ڈیڑھ سال تک بچت کے لیے انتظامات کیے۔ اس دوران کیمرا اٹھایا، بلاگز لکھنا شروع کر دیے اور سوشل میڈیا کے بارے میں معلومات بھی حاصل کی۔ انڈسٹری کے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور ایک نیٹ ورک بننا شروع ہو گیا۔”
اس سوال پر کہ دنیا بھر کے سفر میں سب سے پسندیدہ جگہ کون سی رہی اور اس کی وجہ کیا ہے؟ آلفرڈ نے کہا کہ میں نے ایک فہرست تو بنائی ہے، ٹاپ 5 مقامات کی لیکن یہ ایسا ہے جیسے اولاد میں سے کسی ایک کو سب سے پیارا قرار دینے کا فیصلہ کیا جائے۔ بہرحال، مجھے مختلف وجوہات کی بنا پر چند مقامات بہت پسند ہیں۔ مجھے غوطہ خوری کے لیے انڈونیشیا بہت پسند آیا کیونکہ وہاں اس کے لیے بہترین مقامات موجود ہیں۔ میں خود غوطہ خور ہوں اور پانی کے نیچے کی دنیا مجھے بہت پسند ہے۔ پھر اپنے قدرتی حُسن اور لوگوں کے اخلاق کی وجہ سے مجھے وینیزویلا بہت پسند ہے۔ مہمان نوازی میں پاکستانیوں کا کوئی جواب نہیں۔ وہاں کے پہاڑی علاقوں کا حسن بھی لاجواب ہے۔ اگر تاریخ کی بات کریں تو مصر ہے اور انوکھے اور منفرد مقام کے لحاظ سے آئس لینڈ۔
جب آلفرڈ سے ایسی جگہ پوچھی گئی جہاں وہ دوبارہ نہیں جائیں گی، تو انہوں نے کہا کہ پسندیدہ اور ناپسندیدہ مقامات کے بارے کرنے بات کرنا ہمیشہ مشکل لگتا ہے۔ ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں میں دوبارہ جانا پسند نہ کروں۔
انہوں نے کہا کہ میرے سفر صرف ملکوں کی گنتی پوری کرنے کے لیے نہیں تھے بلکہ میں تجربہ اٹھانا چاہتی تھی، خاص طور پر سفر کے دوران لوگوں سے میل جول کا کیونکہ یہ لوگ ہی طے کرتے ہیں کہ آپ کا سفر یادگار بنے گا یا خراب ہوگا۔ یہ لوگ ہی ہوتے ہیں جن کے تجربات آپ کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
کرونا وائرس اور اس کے بعد سیاحت پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ برازیل میں تھیں جب پچھلے سال مارچ کے اوائل میں کارنیول سے ایک دن پہلے کرونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا اور وہ امریکا واپس آ گئیں۔ بہرحال، گزشتہ ایک سال میں انہیں ترکی اور عراقی کردستان جانے کا موقع بھی ملا۔
تنہا سفر کے حوالے سے آلفرڈ نے کہا کہ میں نے تقریباً 50 ممالک کا اکیلے سفر کیا ہے۔ یہ تقریباً سات، آٹھ مہینے بنتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہر شخص کو چاہے مرد ہو یا عورت تنہا سفر کا تجربہ ضرور اٹھانا چاہیے، کم از کم زندگی میں ایک تو ضرور۔ اس سے آپ سیکھتے ہیں کہ آپ کتنے خود مختار ہیں اور ‘دنیا دیوانی’ میں کس طرح تنہا سفر کر سکتے ہیں۔
جواب دیں