ایک مسلمان خاتون کس طرح خود کو خواتین کے حقوق کی حامی کہہ سکتی ہے؟ مسلمانوں میں جتنا عدم مساوات اور زن بیزاری ہے، اسے دیکھتے ہوئے تو نہیں لگتا کہ یہ دونوں تصورات ایک جگہ اکٹھے ہو سکتے ہیں۔
یہ وہ تاثر ہے جو اتنا عام ہو چکا ہے کہ اس پر اب کوئی حیرت بھی نہیں ہوتی۔ پچھلے مہینے مسلم کونسل برطانیہ کی نو منتخب سیکریٹری زارا محمد کے بی بی سی ریڈیو 4 کے ‘ویمنز آور’ میں انٹرویو میں جو کچھ ہوا، وہ اس کی ایک جھلک پیش کرتا ہے۔
میزبان ایما بیرنیٹ نے انٹرویو کے دوران انتہائی جارحانہ رویہ اختیار کیا اور ایسا لگتا تھا کہ وہ ہر قیمت پر اپنی مہمان کو جھکانا چاہتی ہیں۔ ان کی پوری گفتگو میں کہیں اس امر کا شائبہ تک نظر نہیں آیا کہ جس میں انہوں نے ان کے اس انتخاب کو تبدیلی کی ایک علامت سمجھا ہو اور صنفی مساوات کی طرف پیش رفت قرار دیا ہو، بلکہ انہیں نے اس امر کو تسلیم کرنے یا قبول کرنے کی طرف اشارہ بھی نہیں کیا۔
اس انٹرویو کو دیکھنے کے بعد ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی مسلمان خواتین نے بُرا محسوس کیا اور یہ سوالات پیدا ہوئے کہ کیا مسلمان خواتین کے کارناموں کو کبھی تسلیم بھی کیا جائے گا؟
مسلمان خواتین جو اپنی زندگی میں کامیاب سمجھی جاتی ہیں، ان کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان پر نہ صرف اپنی برادری کی طرف سے، بلکہ دوسرے حلقوں سے بھی اسی طرح حملے ہوتے ہیں۔ ان کی کامیابی کو ان کے عقیدے اور مذہب کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، جو اُن کے خیال میں پسماندہ ہے۔ یعنی وہی تاثر جو چند مسلمان حلقوں میں ہے جو دین کی اپنی ہی تفہیم پر چلتے ہیں اور صنفی عدم مساوات اور امتیاز پر یقین رکھتے ہیں، لیکن افسوس کہ یہی تاثر دوسری جگہ جا کر بھی تبدیل نہیں ہوتا کہ جہاں ایک تعلیم یافتہ، جدید اور کھلے ذہن کی خاتون کو مذہبی خاتون بھی سمجھا جائے اور یہاں بھی ان کی بات سننے کے بجائے ان پر حملے ہی ہوتے ہیں جیسا کہ بی بی سی کے اس انٹرویو میں ہوا۔
لیکن مسلمان خواتین کے بارے میں پڑھنے، سننے اور دیکھنے سے بہت سے راز کھلتے ہیں۔ آپ کو پتہ چلے گا کہ اس وقت دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی کی بنیاد دراصل مسلمان خواتین نے رکھی تھی۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابیاتؓ نے جنگوں میں حصہ لیا، وہاں زخمیوں کی مرہم پٹیاں تک کی جبکہ معاشرے میں ان کی رائے کی بہت اہمیت ہوتی تھی۔ آج دین جس صورت میں ہم تک پہنچا ہے، اس میں ایک بڑا حصہ ان خواتین کا ہے جنہوں نے اس کی تدریس و تبلیغ میں حصہ لیا۔
ام المومنین حضرت خدیجہؓ ایک خود مختار اور دولت مند خاتون تھیں، اپنا کاروبار خود چلاتی تھیں۔ بیوہ ہونے کے بعد خود سے 15 سال چھوٹے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو شادی کا پیغام دیا اور 40 سال کی عمر میں ان سے شادی کی۔ ان کی شخصیت آج کی جدید خاتون کے لیے بھی ایک رہنما اور بہترین رول ماڈل ہے۔ پھر اسلامی احکامات لڑکیوں کو بہتر تعلیم و تربیت دینے اور ان سے اچھا سلوک کرنے سے بھری پڑی ہیں۔ خاندان کے علاوہ معاشرے کو بھی ان کے احترام اور ان کا خیال رکھنے کا حکم ہے۔ ایک مسلمان خاتون ہمیشہ اپنی ملکیت اور اپنی دولت کی خود مالک رہتی ہے۔ کوئی شخص اس کی دولت پر دعویٰ نہیں کر سکتا، الّا یہ کہ وہ اپنی مرضی سے جسے چاہے اپنی دولت دے دے۔ اس کے پاس رشتہ داروں سے وراثت حاصل کرنے کا حق بھی اور اپنی شادی ختم کرنے کا اختیار بھی۔ یہ تمام حقوق اسلامی عقائد کا حصہ ہیں اور قرآن مجید میں واضح طور پر موجود ہیں۔ یہ کوئی نئے زمانے کی ایجاد نہیں بلکہ اسلام کی بنیاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان خواتین اپنے حقوق کو اچھی طرح جانتی ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ انہیں صدیوں پہلے ان جکڑ بندیوں سے آزاد کر چکا تھا، جب پوری دنیا نے ابھی خواتین کی خود مختاری اور آزادی کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ اس لیے آج کی مسلمان خواتین کو اپنے عقائد کے کسی دوسرے کے معیارات پر پورا اترتے دیکھے کی ضرورت بھی نہیں۔
ہو سکتا ہے ایما بیرنیٹ مسلمان خواتین کے کردار کو محض امام کی حد تک محدود سمجھتی ہوں، لیکن اس معاملے میں وہ یہ غلطی بھی کر بیٹھیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے امام اور مسیحیوں کے پادری کو برابر سمجھا، جبکہ درحقیقت دونوں برابر نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے وہ یہ سمجھتی ہوں کہ مسلم خواتین کا تعارف محض ان کا سر ڈھانپنا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمان خواتین کی بات سنیں تو پتہ چلے گا کہ خواتین کی جانب سے مردوں کی امامت کرنا وہ مسئلہ ہی نہیں جس پر اتنا طوفان کھڑا کیا جائے۔ اسلام ان فروعات اور چھوٹی باتوں سے کہیں آگے ہے۔ یہاں خواتین اماموں کی تحریک کی ضرورت پر زور دینا ویسا ہی جارحانہ رویہ ہے، جیسا پدرشاہی کا جدید معاشروں میں رہا ہے۔
مسلمان خواتین کا اپنی خود مختاری ثابت کرنے کے لیے محض امامت کے حصول پر اکتفا کر لینا، درحقیقت اسلام میں ملنے والے حقوق سے کہیں کم تر چیز پر راضی ہو جانے کے برابر ہے۔
جواب دیں