دنیا بھر میں خواتین اراکینِ پارلیمنٹ کی شرح گزشتہ سال 25 فیصد سے زیادہ تک ہو گئی۔ گو کہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے لیکن صنفی برابری کے لیے اب بھی بہت لمبا سفر باقی ہے۔ یہ اعلان 8 مارچ کو عالمی یومِ خواتین سے پہلے اقوام متحدہ کی شراکت دار انٹر-پارلیمنٹری یونین (IPU) نے کیا ہے۔
جنیوا میں تازہ ترین ‘ویمن اِن پارلیمنٹ’ رپورٹ کے اجرا موقع پر خطاب کرتے ہوئے IPU کے سیکریٹری جنرل مارٹن چنگونگ نے کہا کہ مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ پہلی بار دنیا بھر میں خواتین پارلیمنٹ کا چوتھائی حصہ بن چکی ہیں۔ اب خواتین کا عالمی اوسط 25.5 فیصد ہو چکا ہے۔
عالمی انجمن IPU دہائیوں سے خواتین کی پارلیمنٹس میں موجودگی کا مشاہدہ کر رہی ہے، جس کی وجہ سے وہ ہونے والی پیش رفت اور پہنچنے والے دھچکوں سے اچھی طرح آگاہ ہے۔ سیکریٹری جنرل کہتے ہیں ایک طرف جہاں ہم اس تاریخی سنگِ میل تک پہنچنے کا جشن منا رہے ہیں، وہیں ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پیش رفت کی رفتار بہت زیادہ سست ہے۔ اس شرح سے تو پارلیمنٹس میں صنفی مساوات حاصل کرنے میں مزید 50 سال لگ جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ روانڈا، کیوبا اور متحدہ عرب امارات نے اس سلسلے میں نمایاں پیش رفت کی ہے کہ جہاں خواتین 50 فیصد یا اس سے بھی زیادہ پارلیمانی نشستیں رکھتی ہیں۔ خواتین کی حکومت میں شرکت کے لیے روانڈا کو ایک مثال قرار دیا۔
ادارے کا کہنا ہے کہ کوٹا اس سمت میں ایک اہم قدم ہوگا، اور یہی 2020ء میں دنیا بھر میں ہونے والے انتخابات میں ثابت ہوا ہے۔ انتخابات میں صنفی بنیادوں پر کوٹا گزشتہ سال انتخابات کے عمل سے گزرنے والے 57 میں سے 25 ممالک میں لگایا گیا۔ جس کی وجہ سے ایوانِ زیریں میں خواتین کی تعداد مین 12 فیصد اور ایوانِ بالا میں 7.4فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔
IPU کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ چند معاملات ایسے ہیں جن میں قانون سازی میں خواتین کی شمولیت کے مثبت اثرات بہت واضح ہیں، جیسا کہ صحت عامہ کے شعبے میں۔
گو کہ پچھلے سال کے دوران پارلیمنٹس میں صنفی برابری میں ہر جگہ پیش رفت نظر آئی ہے لیکن بر اعظم شمالی اور جنوبی امریکا خاص طور پر سب سے آگے رہے کہ جہاں اب خواتین اراکینِ پارلیمان کی تعداد 32.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ چلی، کولمبیا اور ایکویڈور میں تو یہ شرح اس اوسط سے بھی زیادہ ہے۔
سب صحارن افریقہ، مالی اور نائیجر میں بھی تمام تر مسائل کے باوجود خواتین کی نمائندگی میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ سیکریٹری جنرل نے کہا کہ یہ اس امر کا ثبوت کہ سیاسی خود مختاری کے لیے تبدیلی کے عمل میں خواتین کا کردار اہم ہے۔
پارلیمنٹس میں خواتین کی سب سے کم شرح مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ میں ہے کہ جہاں اوسطاً 17.8 فیصد خواتین رکن ہیں۔
اس کے علاوہ نیوزی لینڈ کو چھوڑ کر بحر الکاہل کے علاقے میں بھی خواتین اراکینِ پارلیمان کی شرح بہت کم یا تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
‘ویمنِ ان پارلیمنٹ’ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ کووِڈ-19 کی وبا نے گزشتہ سال انتخابات پر بھی اثرات مرتب کیے بلکہ چند ملکوں میں انتخابات ملتوی بھی ہوئے۔ تقریباً 50 ایسے ممالک میں جہاں انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا وہاں خواتین کو وبا کے علاوہ سیاست میں بڑھتے ہوئے عدم توازن کی وجہ سے بھی کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
جواب دیں