انسانی حقوق کے عالمی ادارے ‘ہیومن رائٹس واچ’ نے کہا ہے کہ جنسی ہراسگی کے خلاف لبنان کا نیا قانون بین الاقوامی معیارات پر پورا نہیں اترتا، یہ اسے جرم تو قرار دیتا ہے لیکن اس سے تحفظ، مزدور قوانین میں اصلاحات، نگرانی کے عمل اور اس کےخلاف شعور اجاگر کرنے کے اقدامات کو نظر انداز کرتا ہے۔
8 مارچ کو عالمی یوم خواتین سے پہلے جاری کردہ اپنے ایک بیان میں ادارے نے مطالبہ کیا ہے کہ لبنانی حکومت کو ایک جامع طرزِ عمل اپنانا چاہیے اور اس کے یے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(ILO) کا تشدد و ہراسگی کنونشن کی توثیق اور اس کے نفاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
لبنان نے 21 دسمبر 2020ء کو ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت جنسی ہراسگی کو جرم قرار دیا گیا تھا۔ لیکن یہ اس کنونشن کے معیارات کے مطابق نہیں جو کہتا ہے کہ حکومت کو کام کی جگہ پر ہر قسم کے تشدد اور ہراسگی سے نمٹنے کے لیے ایک "جامع، مکمل اور صنفی لحاظ سے مؤثر طرزِ عمل” اختیار کرتے ہوئے فوجداری قانون کے ساتھ ساتھ مزدور قوانین، کام کی جگہ پر تحفظ اور صحت اور برابری کی بنیاد پر غیر امتیازی قوانین کو تشکیل دینا چاہیے۔
ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کی ڈائریکٹر نشا واریا کا کہناہے کہ جنسی ہراسگی کو ایک جرم قرار دینا ایک اہم قدم ہے کیونکہ اب تک اسے برداشت کیا جا رہا تھا اور یہ لبنان میں عام تھا، لیکن موجودہ قانون اسے روکنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
لبنان میں جنسی ہراسگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ 2016ء کے ایک عالمی سروے میں جواب دینے والی دو تہائی خواتین نے بتایا کہ انہیں عوامی مقامات پر جنسی ہراسگی کا سامنا رہتا ہے، جن میں کئی خواتین ایسی بھی تھیں جنہیں سروے کے وقت گزشتہ تین ماہ میں اس کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
نئے قانون کے تحت "کوئی بھی ایسا غلط رویہ جو غیر معمولی ہو، نشانہ بننے والے کو ناپسند ہو اور جنسی زمرے میں آتا ہو جو اس کے جسم، پرائیویسی اور احساسات کے خلاف ہو” جنسی ہراسگی ہے۔ قانون کے تحت جنسی ہراسگی زبانی، عملی اور برقی ذرائع سے ہو سکتی ہے۔ یہ قانون "نفسیاتی، اخلاقی، مالی یا نسل پرستانہ دباؤ سے جنسی فوائد حاصل کرنے کے لیے” ایک یا متعدد بار کیے گئے عمل کو جنسی ہراسگی قرار دیتا ہے۔ یہ جنسی ہراسگی پر ایک سال قید اور کم از کم اجرت کا 10 گُنا جرمانہ لگاتا ہے۔ اگر مظلوم ماتحت ہو یا ایسا کام کے حوالے سے مختلف تناظر میں کیا گیا ہو تو یہ سنجیدہ جرم ہے اور اس میں قید کا دورانیہ بڑھا کر 4 سال تک اور جرمانہ کم از کم اجرت کا 50 گُنا ہو سکتا ہے۔
اس قانون کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ مظلوم کو کسی جوابی حملے سے بچاتا ہے، یعنی اس کی تنخواہ میں رد و بدل، ترقی روکنے، منتقلی کرنے، معاہدے کی تجدید میں روڑے اٹکانے یا اس کے خلاف کوئی انضباطی قدم اٹھانے سے روکتا ہے۔ ایسی کسی بھی حرکت پر 6 مہینے قید اور کم از کم اجرت کا 20 گُنا جرمانہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ قانون جنسی ہراسگی یا استحصال کے خلاف گواہی دینے والوں کو تحفظ بھی دیتا ہے۔
لبنان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے متعدد گروپوں نے ایک مزید جامع قانون قومی کمیشن برائے خواتین میں جمع کروایا تھا، جس کی کئی سفارشات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ وہ اس منظور شدہ قانون کے محدود دائرے اور اس پر مذاکرات اور منظوری سے پہلے نظر ثانی کے عمل سے سوِل سوسائٹی کو باہر رکھنے پر بھی مایوس ہیں۔
نشا واریا کہتی ہیں کہ لبنان کی خواتین کا حق ہے کہ وہ تحفظ کے احساس اور وقار کے ساتھ اور جنسی ہراسگی اور تشدد سے پاک معاشرے میں زندگی گزاریں۔ حکومت کو ایک قومی حکمتِ عملی پر کام کرنا چاہیے اور اس میں سوِل سوسائٹی کی شرکت کو یقینی بنانا چاہیے۔ اس کے علاوہ ممنوعات کو توڑنے کے لیے عوامی شعور کی مہمات چلانی چاہئیں اور کام کی جگہ کے لیے پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں تاکہ جنسی ہراسگی کا خاتمہ ہو سکے۔
جواب دیں