سوئٹزرلینڈ میں نقاب پر پابندی کے خلاف ریفرنڈم، مسلمانوں کا احتجاج

سوئٹزرلینڈ کے باشندوں کی اکثریت خواتین کے نقاب اور برقعے پر پابندی کے حق میں دکھائی دیتی ہے، کم از کم حالیہ پولز سے تو یہی ظاہر ہو رہا ہے جبکہ اس پابندی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ سراسر اسلاموفوبیا اور صنفی امتیاز ہے۔

سوئٹزلینڈ میں 7 مارچ کو ایک عوامی ریفرنڈم ہونے والا ہے، جس میں عوام سے رائے طلب کی گئی ہے کہ نقاب، برقعے اور چہرہ ڈھانپنے کی کوشش پر پابندی ہونی چاہیے یا نہیں۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ یہ ریفرنڈم انتہائی نسل پرستانہ اور صنفی امتیاز پر مبنی تاثر پیدا کر رہا ہے اور اس کا براہِ راست ہدف مسلمان خواتین تو ہیں ہی لیکن یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔

مسلمان خواتین گو کہ مذہبی فریضہ سمجھ کر نقاب کرتی ہیں لیکن سوئٹزرلینڈ میں نقاب کرنے والی خواتین زیادہ تر سیاح ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنوری میں حکومت نے مطالبہ کیا تھا کہ عوام اس ریفرنڈم کو مسترد کریں۔

ایک اندازے کے مطابق سوئٹزرلینڈ میں نقاب کرنے والی خواتین کی تعداد صرف 36 سے 130 ہے۔ اس کو بنیاد بنا کر ملک گیر پابندی سے سوئٹزرلینڈ کی سیاحت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

گو کہ حکومت معاشی بنیادوں پر اس رائے کی مخالفت کر رہی ہے، لیکن اس ریفرنڈم کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ سراسر اسلاموفوبیا ہے اور خواتین کی زندگی میں مداخلت کی کوشش ہے۔

وکیل اور مسلم خواتین کی تنظیم Les Foulards Violets کی رکن مریم مستور کہتی ہیں کہ یہ "یہ قدم صنفی امتیاز پر مبنی ہے کیونکہ ایک طرف ہم خواتین کو اپنے جسم پر اختیار دینا چاہتے ہیں اور دوسری طرف اس خود مختاری کو مسترد بھی کر رہے ہیں۔ یہ قدم نسل پرستانہ بھی ہے کیونکہ اس سے سوئس مسلمانوں کی توہین ہو رہی ہے۔”

تازہ ترین پول کے مطابق اس پابندی کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد میں 6 فیصد اضافہ تو ہوا ہے لیکن اب بھی 59 فیصد لوگ کہتے ہیں کہ وہ اس پابندی کے حق میں ہیں۔

اگر ریفرنڈم کے نتیجے میں سوئٹزرلینڈ میں نقاب اور برقعے پر پابندی لگی تو وہ ایسا کرنے والا پہلا ملک نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے فرانس، ڈنمارک، نیدرلینڈز، آسٹریا، بیلجیئم، لیٹویا اور بلغاریہ میں ایسی قانون سازی کی گئی ہے جس میں مسلمان خواتین کی مذہبی آزادی اور اپنی مرضی کا لباس پہننے کے اختیار پر پابندی لگائی گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے