کرونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد جو معاشی بحران پیدا ہوا ہے، اس نے دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیوں پر بھیانک اثرات مرتب کیے ہیں، بلکہ مردوں اور عورتوں کی زندگی پر مختلف انداز میں اثر ڈالا ہے۔ خواتین جو زیادہ تر صحت کے شعبے سے وابستہ ہیں کہ جہاں انہیں کووِڈ-19 کے نتائج کا براہِ راست سامنا ہے یا پھر وہ گھریلو ذمہ داریاں انجام دے رہی ہیں کہ جس سے انہیں کوئی آمدنی نہیں ملتی۔ پھر خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہ ملتی ہے، بچے کی تربیت اور اسے سنبھالنے کا اضافی بوجھ بھی اسی کے کاندھوں پر ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بسا اوقات گھریلو تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
یوں وبا نے دنیا بھر میں افرادی قوت میں صنفی برابری کو متاثر کیا ہے اور خواتین کی دہائیوں کی پیشرفت خطرے کی زد میں آ گئی ہے۔
کووِڈ-19 اب بھی دنیا بھر میں زندگی اور روزگار کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے اور حکومتوں کی پالیسیاں خاص طور پر صنفی لحاظ سے اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں۔ درپیش چیلنج بہت بڑا ہے جبکہ صنفی برابری کی کوششیں نہ ہونے کے برابر۔
عالمی بینک کی حالیہ ‘ویمن، بزنس اینڈ دی لا 2021ء’ رپورٹ اس معاملے پر بہت اچھی طرح روشنی ڈالتی ہے، جس کے مطابق خواتین کو دنیا بھر میں مردوں کے مقابلے میں اوسطاً تین چوتھائی حقوق ہی حاصل ہیں۔
یہ رپورٹ بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس میں دیکھا گیا ہے کہ ان شعبوں کی کارکردگی بہتر ہے جن میں صنفی توازن موجود ہے، پالیسی سازی میں خواتین کو حصہ بنایا جاتا ہے، اُن کی افرادی قوت زیادہ ہے اور ان کے روزگار کے مواقع کو کم خطرات لاحق ہیں۔ اس لیے قانونی لحاظ سے ایسا ماحول بنانا جو خواتین کی معاشی شمولیت کو یقینی بنائے اس بحران سے نمٹنے میں مدد دے سکتا ہے۔
یہ رپورٹ دیکھتی ہے کہ کس طرح 190 ممالک کے قوانین اور قواعد و ضوابط خواتین کے معاشی مواقع کو متاثر کر رہے ہیں۔ یہ ان اصلاحات کا احاطہ کرتی ہے جو ستمبر 2019 سے اکتوبر 2020 کے دوران کی گئیں۔ اس میں 8 اشاریوں کی مدد سے خواتین کی پیشہ ورانہ زندگی میں موجود مختلف سنگ ہائے میل پر ان کے معاشی حقوق کا جائزہ لیا گیا ہے، جن میں شادی کے موقع پر اور بچوں کی پیدائش کے بعد ملنے والے حقوق، قانون کس طرح انہیں اپنا کاروبار کرنے کی اجازت دیتا ہے یا اس سے روکتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں اپنے اثاثے سنبھالنے کی سہولت دیتا ہے۔
سال 2020ء کے لیے دنیا بھر کا اوسط اسکور 76.1 ہے، جو 2019 کے 75.5 سے زیادہ ہے۔ 10 ممالک میں خواتین کو یکساں حقوق حاصل ہیں جن میں بیلجیئم، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، آئس لینڈ، آئرلینڈ، لیٹویا، لکسمبرگ، پرتگال اور سوئیڈن شامل ہیں۔ زیادہ آمدنی رکھنے والے OECD ممالک اور مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ (MENA) میں سب سے زیادہ اصلاحات کی گئیں۔ اس کے باوجود MENA ممالک میں سب سے زیادہ بہتری کی ضرورت ہے۔
لیکن بیشتر ممالک کی اصلاحات کی کوششیں ناکافی ہیں۔ آج تقریباً آدھے، تقریباً 90، ممالک ایسے ہیں جو ایک ہی کام پر مردوں اور عورتوں کو برابر کی تنخواہ دینے کا قانون رکھتے ہیں۔ 88 ممالک میں قانون خواتین کے کاموں اور اوقاتِ کار کو محدود کرتا ہے، جس کی وجہ سے 2.6 ارب خواتین متاثر ہو رہی ہیں۔ یوں کئی مسائل جنم لے رہے ہیں، مثلاً چند شعبوں میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے اور بدقسمتی سے یہی شعبے اب کووِڈ-19 سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، جیسا کہ صحت، تعلیم، سیاحت اور گھریلو خدمات۔
روزگار کے محدود مواقع اور برابر کی تنخواہ کا حق، جس میں سب سے زیادہ بہتری دیکھی گئی ہے، لیکن آٹھ اشاریوں میں سے یہی وہ اشاریہ ہے کہ جس کی کارکردگی بدترین اشاریوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔
جواب دیں