جب تھپڑ پڑتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟
کچھ کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ سنسناہٹ کانوں سے پورے جسم میں دوڑ جاتی ہے۔ آپ اس تھپڑ سے اپنے بگڑنے والے توازن کو بحال کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ جو آپ کے پورے جسم کو ہلا چکا ہے۔ آپ کا چہرہ سرخ ہو چکا ہے اور ہو سکتا ہے کہ زخمی بھی ہو چکا ہو۔ کانوں میں سنسناہٹ جاری رہتی ہے اور آپ کو دوسری کوئی آواز نہیں آتی۔ آپ پریشان ہیں کہ اس تکلیف کو ختم کرنے کے لیے کیا کریں؟
ایک تھپڑ، صرف ایک تھپڑ؟
کئی گھروں کے بند دروازوں کے پیچھے کی کہانی ایسی ہی ہے۔ ایک تھپڑ، دو تھپڑ، یا دس؛ ریپ، جذباتی، استحصال، دھمکیاں یا صرف خاموشی۔ گھریلو تشدد کی قسمیں ہیں۔
بھارت کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے اور ممبئی کی ایک کچی آبادی پر کی گئی تحقیق کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں خواتین کی اکثریت اپنی داستان نہیں بتاتی یا کسی سے مدد طلب نہیں کرتی۔ وہ خاموشی سے سب کچھ سہتی ہے اور اپنے جسمانی و نفسیاتی زخم چھپاتی ہے۔
سوانچتن سوسائٹی آف مینٹل ہیلتھ کے ڈاکٹر رجت مترا کا کام ہے خواتین پر ہونے والے جرائم پر دہلی پولیس کے ساتھ مل کر کام کرنا، وہ اپنے مشاہدے میں آنے والے ایسے واقعات سے دوچار ہونے والی تمام خواتین میں ان کی بے چارگی و مجبوری کو مشترک پاتے ہیں۔ "انہیں لگتا ہے کہ وہ کچھ بھی کر لیں، حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ وہ کسی بھی قسم کے حالات میں ردعمل ظاہر کرنا چھوڑ دیتی ہیں، سمجھتی ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے، ان کا حال یہی رہے گا۔ یہی احساس لڑکیوں کی تربیت میں اور ہمارے ثقافتی پسِ منظر میں نظر آتا ہے، انہیں سکھایا جاتا ہے کہ کوئی متبادل ذریعہ یا خود مختار ہونے کا موقع ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ صورت حال یہ ہے کہ اکثر و بیشتر خواتین ظلم کرنے والے ساتھی کا دفاع کرتی ہیں، انکار کر دیتی ہیں کہ ان پر تشدد کیا گیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ مرد یا رویّہ ہے، اس کے جملے کہ "میں خود کو بدلوں گا،” یا پھر "تم ہی ہو جو مجھے بدل سکتی ہو۔” ان فلمی ڈائیلاگز سے عورت پگھل جاتی ہے اور یہ چکر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ عورت کسی بھی احساس سے عاری ہو جاتی ہے۔ اس گرداب سے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔
خواتین پر لڑکیوں پر تشدد کو روکنے کے لیے پروگرام ‘ایٹ بریک تھرو انڈیا’ کی ڈائریکٹر ناین چوہدری کہتی ہیں کہ وہ گھریلو تشدد کے معاملات کو قریب سے دیکھنے کا تجربہ رکھتی ہیں۔ جسمانی تشدد کو تو بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن ذہنی تشدد اور زبانی یا معاشی استحصال کو مانا تک نہیں جاتا حالانکہ وہ بڑے پیمانے پر پایا جاتا ہے۔
بسا اوقات ایسے حالات کا الزام خواتین پر ہی لگتا ہے کہ ان کے ساتھ اگر کوئی ظلم ہوا ہے تو وہی اس کی وجہ بنی ہوں گی اور اپنے اردگرد موجود لوگوں کی طرف سے ہر وقت شک و شبہ کا اظہار خواتین کی عزتِ نفس کو مجروح کر دیتا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔
بے چارگی اور تنہائی کا یہی احساس خواتین میں خود کشی کے رحجان کو تقویت دیتا ہے۔ بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے ڈیٹا کے مطابق بھارت میں خود کشی کرنے والوں میں سب سے زیادہ شرح گھریلو خواتین کی ہے، جو 17.1 فیصد ہے۔ ہر روز ملک میں 63 گھریلو خواتین اپنی جان خود لے لیتی ہیں۔
درحقیقت یہ موت گھریلو تشدد کا براہِ راست یا بالواسطہ نتیجہ ہوتی ہے۔ یوں ایک اور سوال ابھرتا ہے کہ کیا یہ محض ایک تھپڑ ہے؟
جواب دیں