بھارت کی مشرقی ریاست اڑیسہ میں ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا گیا ہے جو 1999ء کے بدنام ریپ کیس میں مرکزی ملزم تھا لیکن دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک مفرور رہا۔
مغربی ریاست مہاراشٹر کے ضلع پونے میں جب پولیس ببیکنندا بسوال نامی ملزم کے گھر پہنچی تو سینئر اہلکار سدھانسو سارنگی کے مطابق اس نے فرار ہونے کی کوشش کی، پکڑا گیا تو کہنے لگا مجھے یہاں سے لے چلو، میں سب بتاتا ہوں۔
بسوال ان تین ملزمان میں سے ایک تھا جو 9 جنوری 1999ء کی رات ایک 29 سالہ خاتون کے گینگ ریپ میں ملوث تھے۔ اس واقعے کے دیگر مجرموں پردیپ کمار ساہو اور دھیندر موہانتی کو گرفتار کر کے عدالت میں مقدمہ چلایا گیا تھا، جہاں ان پر جرم ثابت ہوا تھا اور انہیں تاعمر قید سنائی گئی تھی۔ ساہو پچھلے سال جیل ہی میں مر گیا تھا۔
اس واقعے کے مطابق خاتون اپنی ایک صحافی دوست اور ڈرائیور کے ہمراہ ریاستی دارالحکومت بھوونیشور سے جڑواں شہر کٹک جا رہی تھی، جب موٹر سائیکل پر سوار تین افراد نے ان کی گاڑی کو روکا۔ عدالت کی دستاویزات کے مطابق ملزمان بندوق کی نوک پر انہیں ایک ویرانے میں لے گئے، جہاں چار گھنٹوں تک خاتون کے ساتھ ریپ کیا گیا۔ ان کی دوست کو بھی دھمکایا اور مارا پیٹا گیا اور ان کے پاس موجود قیمتی اشیا اور نقدی بھی لوٹ لی گئی۔
اس واقعے کے بعد پوری ریاست ہل گئی تھی، نہ صرف اس صریح ظلم پر، بلکہ اس لیے بھی کیونکہ متاثرہ خاتون نے چند اہم شخصیات پر الزامات لگائے تھے کہ جن میں اس وقت کے ریاست کے وزیر اعلیٰ جے پی پٹنائیک بھی شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ اس عہدیدار کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے خلاف انہوں نے واقعے سے 18 مہینے پہلے ریپ کی کوشش کا مقدمہ درج کروایا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اس ریپ کے پیچھے ان دونوں کا کردار تھا اور مقدمہ واپس لینے کے لیے مجھے ڈرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
البتہ پٹنائیک کا کہنا تھا کہ یہ الزامات ان کے خلاف ایک سیاسی سازش ہیں۔ لیکن ایک مہینے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ ایک سال بعد اس عہدیدار کو ریپ کی کوشش کا الزام ثابت ہونے پر تین سال قید کی سزا ہوئی۔
اس گینگ ریپ کیس کی تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کو طلب کیا گیا لیکن عدالت کے مطابق مرکزی ملزم بسوال کا کچھ پتہ نہیں چلا کہ اسے زمین نکل گئی یا آسمان کھا گیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا اور اس مقدمے کی فائلیں کٹک کے ایک تھانے میں دھول پھانکتی رہیں۔ یہاں تک کہ گزشتہ نومبر میں سدھانسو سارنگی کسی دوسرے معاملے کے لیے جیل گئے تو وہاں ان کی ملاقات موہانتی سے ہوئی۔ سارنگی نے بتایا کہ "اس سے بات کرتے ہوئے مجھے پتہ چلا کہ اس کا ایک ساتھی نہیں پکڑا گیا تھا۔ اگلے روز جب میں دفتر آیا تو میں نے اس کیس کی فائلیں طلب کیں اور میرے ذہن میں یہی بات آئی کہ یہ بندہ اتنے بدترین جرم کے بعد لازماً پکڑا جانا چاہیے۔”
سارنگی، جو بھوونیشور اور کٹک کے پولیس کمشنر ہیں، نے اس کیس کو دوبارہ کھولا اور اسے کوڈ نام دیا "آپریشن سائلنٹ وائپر” کا۔ ایک خاموش ناگ کا پتہ چلانے کے لیے جو 22 سال سے لاپتہ تھا۔ چار رکنی ٹیم بنائی گئی اور صرف انہی چار افراد کو اس معاملے کا پتہ تھا، باقی سب سے یہ معلومات خفیہ رکھی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ "19 فروری کی شام ساڑھے 5 بجے جب ہمیں یقین ہو گیا وہ شخص مل گیا ہے تو اسی روز تین افسران پہلی پرواز سے پونے روانہ کر دیے گئے۔ اڑیسہ اور مہاراشٹر پولیس کی مشترکہ ٹیم نے اگلے روز چھاپہ مارا اور وہ پکڑا گیا۔”
پولیس کو اس شخص کے بارے میں معلومات جمع کرنے اور منصوبہ بندی میں تین ماہ لگے۔ تحقیقات شروع ہوئیں تو پولیس کو پتہ چلا کہ یہ شخص اپنے خاندان سے رابطے میں ہے، جس میں بیوی کے علاوہ دو بچے بھی شامل ہیں۔ وہ تب پکڑا گیا جب اس کے خاندان نے ایک پلاٹ فروخت کرنے کی کوشش کی جو دراصل بسوال کے نام پر تھا۔ پولیس کو کامیابی تب ملی جب اس خاندان کے مالی حالات کی تحقیقات کی گئیں۔ پتہ چلا کہ ملزم کی بیوی اور بیٹے کوئی کام نہیں کرتے اور ان کی آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں، پھر بھی ان کے اکاؤنٹ میں مستقل پیسے آتے رہتے ہیں جو پونے سے جالندھر سوین نامی کوئی شخص بھیجتا ہے۔
بسوال کی بیوی گیتانجلی پولیس کو کہہ چکی تھی کہ بسوال کا 22 سال سے اپنے خاندان سے کوئی رابطہ نہیں۔ وہ واقعے کے بعد بھاگ گیا تھا اور کبھی نہ گھر آیا اور نہ ہی رابطہ کیا۔ جب جالندھر سوین کے بارے میں پوچھا گیا تو گیتانجلی نے کوئی جواب نہیں دیا کہ وہ کون ہے اور انہیں کیوں پیسے بھیج رہا ہے؟
سارنگی کے مطابق بسوال کو ملازمت مل گئی تھی، بینک اکاؤنٹ بھی کھول لیا تھا، یہاں تک کہ آدھار کارڈ (شناختی کارڈ) اور دیگر دستاویزات تک بن چکی تھیں۔ وہ 2007ء سے ضلع پونے کے ایک پوش علاقے میں رہتا تھا جہاں وہ پلمبر کے طور پر کام کرتا تھا اور ایک نئی شناخت کے ساتھ جی رہا تھا۔
آدھار کارڈ پر اس کا نام اب جالندھر سوین تھا اور والد کا نام پورنند بسوال کے بجائے پی سوین تھا، لیکن اس پر گاؤں کا نام درست لکھا تھا۔
پکڑے جانے کے بعد بسوال نے ریپ کے الزامات کی تو تردید کی لیکن یہ ضرور کہا کہ اس کا شناختی کارڈ اصلی نہیں ہے۔
بہرحال، خاندان والوں نے اسے شناخت کر لیا اور اب وہ مزید تحقیقات کے لیے سی بی آئی کی تحویل میں ہے۔
پیر کو اسے بھوونیشور کی عدالت لایا گیا تو اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے میڈیا نمائندے پل پڑے۔ نیلی شرٹ اور سرمئی پینٹ میں ننگے پیر اور ڈھکے چہرے کے ساتھ بسوال سب کے سامنے سے گزرا۔ پولیس کے مطابق اب اس کی عمر تقریباً 50 سال ہے، گنجا، جسمانی طور پر بہت زیادہ مضبوط نہیں دِکھتا اور بظاہر بالکل عام سا آدمی لگتا ہے۔
پولیس کے مطابق اب بھی بہت سے سوالات باقی ہیں، جن کے جواب ملنے ضروری ہیں۔ وہ کیسے بھاگا؟ 2007ء سے پہلے کہاں تھا؟ وہ اتنے عرصے تک کیسے بچا رہا؟ کوئی اسے پہچان کیوں نہیں سکا؟ نوکری کیسے ملی؟ کیا کسی نے اس کی مدد کی؟ اس کے علاوہ بہت سے چیلنجز بھی ہیں، جیسا کہ خاتون کی جانب سے اسے پہچاننا، لیکن جرم سرزد ہوئے بہت طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ پھر جا کر مقدمہ چلے گا اور فیصلہ ہوگا۔ سارنگی کہتے ہیں کہ ہماری پوری کوشش ہوگی کہ اس پر جرم ثابت ہو۔ ہم اسے باقی زندگی جیل میں گزارتے دیکھنا چاہتے ہیں اور یہاں سے اس کی صرف لاش ہی نکلنی چاہیے۔
متاثرہ خاتون نے پولیس کو سراہا ہے جو انصاف دلانے کے لیے کوشش کر رہی ہے اور وہ اسے سزائے موت دلوانا چاہتی ہے۔ انہوں نے مقامی ٹیلی وژن چینل کو بتایا کہ مجھے توقع نہیں تھی کہ وہ کبھی پکڑا بھی جائے گا لیکن اب خوشی ہے کہ وہ بالآخر پکڑا گیا ہے۔
جواب دیں