خواتین کا عالمی دن آ رہا ہے۔ اس سے پہلے بھارت میں ‘می ٹو’ تحریک کو ایک کامیابی پریا رامانی کے فیصلے پر ملی ہے جس سے کئی دوسری خواتین کو بھی سامنے آنے اور اپنی داستان بیان کرنے کا حوصلہ ملے گا۔ بغاوت کے الزامات پر دِشا روی کی ضمانت نو عمر لڑکیوں کو ہمت دے گی کہ وہ بھی اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کریں۔ لیکن سیاست کے منظرنامے پر ہندوتوا کا ابھرنا خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک تشویشناک بات ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کے لیے لڑنے کے بجائے اب بدقسمتی سے خواتین حکومت حامی اور حکومت مخالف گروہوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہیں۔ اب یہ سمجھنے کا وقت آ چکا ہے کہ عوامی بیانیے میں مذہبی عناصر کے بڑھتے ہوئے میدان سے خواتین کی خود مختاری گھٹ رہی ہے یا بڑھ رہی ہے؟
ایک طرف قدامت پسند مذہبی عناصر ہیں اور دوسری طرف معاشرے کے ہر طبقے کی نظریں بھی روایتی نقطہ نظر سے انحراف کرنے والوں پر جمی ہوئی ہے اور وہ اس نظام پر سوال اٹھانے والے ہر شخص کو سزا دینا چاہتے ہیں۔ تعلیم اور روزگار کے دروازے کھلنے کے بعد اب خواتین گھر سے باہر کی دنیا کا تجربہ بھی رکھتی ہیں لیکن آج بھی خواتین کے حقوق کے حوالے سے یہی اندیشہ ہے کہ کیا ان کی شبانہ روز محنت اور جدوجہد بڑھتی ہوئی مذہبی چوکیداری کی نظر ہو جائے گی؟
خواتین کے عالمی دن پر ہمیں اس موضوع پر بات کرنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ سیاسی، سماجی و ثقافتی ماحول، جس میں بنیاد پرست طاقتیں غالب ہیں، خواتین کے حوالے سے بہتر ہے؟ ہندوتوا پدر شاہی نظام (patriarchy) کی ترویج کرتا ہے۔ یہاں خواتین کا کردار محض روایتی انداز میں دیکھا جاتا ہے اور اس حوالے سے بڑھا چڑھا بیان کیا جاتا ہے۔ اس نظام کی بنیاد ہے روایات کے تحفظ کا بوجھ عورت کے کاندھوں پر ہے، لیکن سوچنے کی اور عمل کی آزادی اسے حاصل نہیں۔ یوں خواتین کی آزادی کے حوالے سے جو معمولی کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں – مثلاً خود سوچنے، کرنے، بولنے، پہننے اور جینے کی آزادی– اس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
ایک طرف حکومت کہتی ہے "بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ”، لیکن دوسری جانب دِشا روی جیسے معاملات پر ان بیٹیوں کی آزادئ اظہار پر قدغن بھی لگائی جاتی ہے۔ لباس کے حوالے خواتین پر پابندیوں کی خبریں بھی عام ہیں اور مذہبی بنیادوں پر ہونے والے فسادات میں اجتماعی تشدد کا پہلا نشانہ بھی عورت ہی ہے۔
"لو جہاد” کا نام لے کر ہندو خواتین کی "حفاظت” کا دعویٰ کر کے ان کی نقل و حرکت اور پسند کی آزادی کو بُری طرح محدود کیا گیا ہے۔ اس طرح خواتین کی اپنے جسم اور ذہن پر اختیار کی آزادی بھی چھین لی گئی ہے۔ ایک بااختیار اور آزاد عورت ایک قدامت پسند نظام کے لیے ہمیشہ سے ایک خطرہ ہے۔
خواتین کے لیے ایک "رول ماڈل” بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایسی عورت جو پڑھی لکھی ہو، بولنا اور اظہار کرنا جانتی ہو لیکن سناتن دھرم میں ڈوبی ہوئی ہے۔ وہ عوام میں تمام عورتوں کی نمائندہ بننے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن انتہائی بنیاد پرستانہ اقدار کی حامی ہیں چاہے وہ عورتوں کی عزتِ نفس ہی کے خلاف کیوں نہ ہوں۔
ہندوتوا کی بنیادی اقدار پھیلانے کے لیے خواتین کو بطور رضاکار تربیت دی جاتی ہے۔ مثلاً خواتین جب عدالت کے فیصلے کی بنیاد پر سبراملا مندر میں داخل ہونے کی کوشش کرتی ہیں تو ان کو روکنے والی بھی خواتین ہی تھیں اور مندر میں عورتوں کے داخل ہونے کی پابندی کا عوام میں دفاع کرنے والی بھی عورتیں۔ اسی عورتوں کو ہی عورتوں کے خلاف کھڑا کر دیا گیا اور خواتین کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو خطرے میں ڈال دیا گیا۔ ان خواتین کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ ہندو مت میں عورتوں کو دیوی کی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن مختلف رسوم و رواج پر مکمل خاموشی ہے جیسا کہ جہیز کا نظام، بیواؤں کے ساتھ خراب سلوک وغیرہ۔ پھر کبھی کبھی تو ستّی جیسی رسم کو بھی مقدس بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور چِتا کے ساتھ جل مرنے والی خواتین کی تعریف کی جاتی ہے۔ صبر کو خواتین کی بڑی خوبی سمجھا جاتا ہے، چاہے دنیا اس کے ساتھ کیسا بھی سلوک کرے۔ بدقسمتی سے ٹیلی وژن ڈرامے بھی خواتین کو ایسے ہی روایتی کردار میں پیش کرتے ہیں۔
جب ایسی قدامت پسندانہ اقدار عوام میں جڑیں پکڑتی ہیں تو خواتین ایسے نظام کی پشت پناہی سے سماجی تجربہ گاہوں کا ایندھن بنتی ہیں اور ان کی "آزادی” ختم ہو جاتی ہے۔
Pingback: یکساں سوِل کوڈ کے لیے ہندوتوا ماڈل؟ حالات مزید گمبھیر ہو جائیں گے - دی بلائنڈ سائڈ
Pingback: اغوا، ریپ اور شادی: ایک گھناؤنی رسم کے خلاف خواتین کی جدوجہد جاری - دی بلائنڈ سائڈ