20 سالہ سیویل اتاکیشیوا آذربائیجان کی ٹورازم اینڈ مینجمنٹ یونیورسٹی کی طالبہ تھیں۔ ملک کی زیادہ تر غیر شادی شدہ خواتین کی طرح وہ بھی اپنے والدین کے ساتھ رہتی تھیں، لیکن ان کا خواب تھا بیرونِ ملک منتقل ہونا اور اپنی زندگی خود جینا لیکن 18 فروری کو سیویل نے خود کشی کرلی۔
انہوں نے 2019ء اور 2020ء میں دو مرتبہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی رہنما گلنارہ مہدیوا تک رسائی حاصل کی تھی، اور بتایا تھا کہ انہیں اپنے خاندان کی جانب سے ہراسگی اور جسمانی تشدد کا سامنا ہے۔ ان کے والد کہتے تھے کہ اگر کبھی نامناسب رویہ اختیار کیا تو قتل کر دوں گا اور پولیس کو دل دلا کر اس معاملے کو چھپا بھی دیں گے۔
سیویل کی خود کشی کے بعد گلنارہ نے ان کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کے اسکرین شاٹس فیس بک پر دکھائے ہیں، جن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر مجھے کچھ ہوا تو ان پیغامات کو ثبوت سمجھیں۔
گلنارہ کی یہ پوسٹ وائرل ہو گئی اور آذربائیجان میں #sevilüçünsusma کا ٹرینڈ وائرل ہو گیا، جس کا مطلب ہے سیویل کے لیے خاموشی مت اختیار کریں۔
سیویل کی داستان آذربائیجان کی کئی خواتین کو اپنے گھر کی کہانی لگتی ہے، جو نہ صرف اپنے ساتھی بلکہ اپنے بہن بھائیوں، والدین اور سسرال کے ہاتھوں جسمانی و نفسیاتی تشدد کا شکار ہیں۔
سیویل کی موت اور گلنارہ کی پوسٹ کے بعد کچھ لوگوں کے تاثرات یہ تھے:
in this country if a girl wants to live freely, she’s labeled as a whore. in this country, a father won’t hesitate to tell his daughter that he’ll kill her if she ever makes a mistake. in this country parents treat their kids as their property. rest in peace,angel #Sevilucunsusma pic.twitter.com/VkodMmeRmf
— maryam ⁷ (semi ia) (@spideykoook) February 21, 2021
Sometimes I try to imagine the degree of desperation that drives a person to commit suicide, and my imagination paints a dark, slimy quagmire where only death is seen as a ray of light…R. I. P SEVIL#sevilucunsusma pic.twitter.com/AcTVEEK6n4
— Michael Iskanderli (@MichaelIskende1) February 21, 2021
Bu qədər şən, həyat dolu birinin ümidlərini, xəyallırını 20-ci mərtəbədən əl birliyi ilə itələdiyiniz üçün utanın! #sevilucunsusma pic.twitter.com/lULMAbiZS3
— Narmin (@narali249) February 20, 2021
"کسی کی امیدوں اور خوابوں سے بھری زندگی کو 20 ویں منزل سے کودنے پر مجبور کرنے پر آپ کو شرم آنی چاہیے۔”
Bu dünyada Bir qadın,bir uşaq,birdə Heyvan olmaq çətindir.#Sevilucunsusma#sevilüçünsusma pic.twitter.com/RHC6kSyMu4
— 🌈🧸 (@lchfrv11) February 20, 2021
"آج سب سے مشکل کام ایک عورت ہونا، ایک بچہ ہونا اور ایک جانور ہونا ہے۔”
سیویل آذربائیجان میں تیسری خاتون ہیں کہ جنہوں نے رواں مہینے خود کشی کی ہے۔
22 فروری کو آذربائیجان کے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 125 کے تحت سیویل کے والد سمیر اتاکیسیف پر مقدمہ درج کیا گیا، جو "خودکشی پر اکسانے” کے حوالے سے ہے۔ البتہ انہوں نے اپنی بیٹی کے ان دعووں کو مسترد کیا ہے کہ انہیں دھمکایا یا مارا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ "اگر میں نے جارحانہ رویہ اختیار کرتا تو اسے تعلیم جاری رکھنے کی اجازت نہ دیتا۔ صرف ایک یا دو سال تعلیم کے بعد گھر پر بٹھا لیتا۔ ہاں ، میں اس پر غصہ کرتا تھا، جب وہ وقت پر گھر نہیں پہنچتی تھی، لیکن تشدد کا کبھی سہارا نہیں لیا۔”
آذربائیجان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2020ء میں ملک بھر میں خواتین پر گھریلو تشدد کے کم از کم 1,180 واقعات پیش آئے۔ 2019ء میں یہ تعداد 1,039 تھی۔ لیکن اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ عموماً گھریلو تشدد کے معاملات سامنے نہیں آتے۔ ایک کروڑ کی آبادی رکھنے والے ملک میں گھریلو تشدد کی شکار خواتین کی پناہ گاہوں کی تعداد صرف 3 ہے جبکہ اس کے خلاف قانون 11 سال پرانا ہے، جس پر شاذ ہی کبھی عمل ہوتا ہے۔
حالیہ چند سالوں کے دوران آذربائیجان کی کئی خواتین نے گھریلو تشدد کے واقعات سامنے لانے کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کیا ہے اور اس سے دوسری خواتین کو بھی حوصلہ ملا ہے۔ 2019ء میں 18 سالہ سلجان یاغمور نے فیس بک پر اپنے والد کی جانب سے خاندان کی ایک خاتون پر تشدد کے بارے میں لکھا تھا۔ اس سے دیگر خواتین کی داستانیں بھی سامنے آئیں، جو عموماً #qadınaşiddətəson یعنی "خواتین پر تشدد ختم کرو” کے پیش ٹیگ کے ساتھ پیش کی گئیں۔
زمینی حقائق کافی مایوس کُن تصویر پیش کرتے ہیں اور جب تک قانون خواتین کو ہر طرح کے ظلم اور ہراسگی سے نہیں بچاتا، سیویل جیسے واقعات پیش آتے رہیں گے۔
Pingback: آذربائیجان، خواتین کے قتل کے بڑھتے واقعات کے خلاف انوکھا مظاہرہ - دی بلائنڈ سائڈ
Pingback: اسرائیل، خواتین کے قتل کے واقعات بالآخر خبروں میں آنے لگے - دی بلائنڈ سائڈ