کووِڈ-19 کے اثرات پچھلے ایک سال سے محسوس کیے جا رہے ہیں اور آج بھی دنیا بھر میں روزمرہ کی زندگی کو متاثر کر رہے ہیں۔ اب یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ وبا نے چند مخصوص طبقات کو زیادہ متاثر کیا ہے جس کی وجہ پہلے سے موجود عدم مساوات اور امتیازی سلوک تھا۔ شرحِ اموات سے لے کر مالی پریشانیاں اور بے روزگاری کی شرح تک سب پہلو آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
کرونا وائرس کی آمد کے بعد بے روزگاری کی جو لہر آئی ہے، وہ موجودہ نسلوں نے پہلے نہیں دیکھی ہوگی۔ صحت کے شعبے سے وابستہ افراد سے لے کر سیاحت و مہمان نوازی تک، یہ وبا ہر شعبے کو بلا امتیاز متاثر کر رہی ہے۔
لیکن ایک چیز جسے برطانیہ میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہ معاشرے کے مختلف طبقات پر پڑنے والے مختلف اثرات ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ غیر سفید فام خواتین بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ خاص طور پر سیاہ فام اور پاکستانی۔ مردوں میں بھی سیاہ فام بے روزگاری کے حوالے سے سفید فاموں سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
برطانیہ کے دفتر قومی شماریات نے لیبر مارکیٹ کے جو اعداد و شمار ظاہر کیے ہیں ان سے مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والی، معذوری سے دوچار، مختلف قومیت سے تعلق رکھنے اور دوسرے ملکوں میں پیدا ہونے والوں میں بے روزگاری کی شرح دیکھی جا سکتی ہے۔
جہاں مجموعی طور بے روزگاری کی شرح میں کمی دیکھنے میں آئی ہے، وہیں اعداد شمار غیر متوقع اور حیران کُن رحجانات بھی رکھتے ہیں۔ جیسا کہ سیام فام افراد میں بے روزگاری کی شرح 13.8 فیصد ہے جو سفید فاموں سے تین گُنا زیادہ ہے کہ جن میں یہ شرح 4.5 فیصد ہے۔ پاکستانی 9.7 فیصد کے ساتھ سیاہ فاموں کے ساتھ سب سے زیادہ بے روزگار ہیں۔
پھر پاکستانی خواتین میں بے روزگاری کی شرح 14.9 فیصد ہے جو سفید فام خواتین سے تین گُنا زیادہ ہے۔ سفید فام خواتین میں بے روزگاری کی شرح 4 فیصد ہے جبکہ سیام فام خواتین 13.5 فیصد کے ساتھ سب سے بے روزگاری کی شرح میں دوسرے نمبر پر ہیں۔
بنگلہ دیشی اور پاکستانی شہریت رکھنے والوں میں روزگار کی شرح سب سے کم ہے جو 57.9 فیصد ہے جبکہ برطانیہ کے شہریوں میں یہ شرح 75 فیصد ہے۔
اور یہ محض برطانیہ کا مسئلہ نہیں ہے۔ امریکا میں بھی اس سے ملتے جلتے حالات ہی نظر آتے ہیں۔ ‘سی این این’ کے مطابق دسمبر 2020ء میں روزگار کے 1,40,000 ایسے مواقع ختم ہوئے، جو سیاہ فام اور لاطینی امریکا سے تعلق رکھنے والی خواتین کو حاصل تھے۔
جبکہ امریکا میں سفید فام خواتین کے روزگار میں اضافہ ہوا ہے، بالکل سفید فام مردوں کی طرح۔
کم تنخواہ والے شعبوں میں لاطینی امریکا سے تعلق رکھنے والی خواتین کی تعداد سفید فاموں سے دو گنا جبکہ سیاہ فام خواتین کی تعداد ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔
صنفی مساوات کی اعزاز یافتہ رہنما شیری ایچیسن کہتی ہیں کہ یہ ایک systematic مسئلہ ہے اور اس میں راتوں رات تبدیلی نہیں آ سکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مرحلہ وار تبدیلی کے لیے تیار رہیں اور آہستہ آہستہ ماحول کو بدلیں۔
Pingback: امریکا میں روزانہ اوسطاً 4 سیاہ فام خواتین کا قتل - دی بلائنڈ سائڈ