جب ثمینہ بیگ قراقرم کے پہاڑی سلسلے پر نظر دوڑاتی ہیں تو دراصل وہ اپنی منزل کی جانب نگاہ کر رہی ہوتی ہیں۔ پاکستان کی مشہور کوہ پیما کی نظریں عرصے سے ملک کی سب سے بڑی اور دنیا کی خطرناک ترین چوٹیوں میں سے ایک پر ہیں۔ کہتی ہیں "کے ٹو میرا خواب ہے، مجھے معلوم ہے کہ یہ دنیا کی مشکل ترین چوٹیوں میں سے ایک ہے لیکن میں اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔”
ثمینہ بیگ رواں سال جون میں کے ٹو سر کرنے کی مہم کا حصہ ہوں گی اور اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئیں تو کے ٹو پر جھنڈا لہرانے والی پاکستان کی پہلی خاتون بن جائیں گی۔
کے ٹو اور دوسرے بلند پہاڑوں کو سر کرنے کے اپنے چیلنجز تو ہی ہیں، لیکن ان خواتین کو دیگر کئی رکاوٹوں کا بھی سامنا ہے اور یہ رکاوٹیں کوہ پیمائی کا لباس پہننے سے کہیں پہلے شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک طرف قدرتی خطرات اور دوسری جانب ان کو عبور کرنے کے لیے درکار مالی مدد، جو یورپی اور امریکی کوہ پیماؤں کو تو آسانی سے مل جاتی ہیں، لیکن پاکستانی کوہ پیماؤں کے لیے نہیں۔
‘ظالم پہاڑ’ کے نام سے مشہور کے ٹو ماؤنٹ ایورسٹ کے بعد دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے اور قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں اس سے اونچا کوئی نہیں۔ سطح سمندر سے 8,611 میٹر بلند، انتہائی خطرناک ڈھلوانیں رکھنے والا کے ٹو، تیز ترین طوفانی ہوائیں اور منفی 60 درجہ سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت رکھتا ہے اور کوہ پیماؤں کی ہلاکت کا سبب بننے والے دنیا کے نمایاں پہاڑوں میں سے ایک ہے۔ اس پر اموات کی شرح ہر 5.5 کامیاب کوششوں پر ایک ہے، اس کے مقابلے میں ایورسٹ پر یہ شرح 33 میں سے ایک ہے۔ 2008ء میں کے ٹو پر صرف 48 گھنٹے میں 11 کوہ پیما مارے گئے تھے۔
انٹرنیشنل کلائمبنگ اینڈ ماؤنٹینیئرنگ فیڈریشن کے صدر پیٹر فارکس کہتے ہیں کہ بلاشبہ کے ٹو سب سے مشکل ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ ماؤنٹ ایورسٹ سے 200 میٹر چھوٹا ہے، لیکن تکنیکی طور پر کوہ پیماؤں کو یہاں کہیں زیادہ مہارت درکار ہوتی ہے۔ انہوں نے آکسیجن کی کمی، سخت ٹھنڈ اور موسم کی بے اعتباری کو زیادہ اموات کی بنیادی وجوہات قرار دیا اور ساتھ ہی پہاڑ سر کرنے سے پہلے کوہ پیماؤں کی انتہائی بلندی پر آخری قیام کو بھی۔ کے ٹو پر سب سے اونچا کیمپ تقریباً 8 ہزار میٹرز پر ہے، جسے ‘انسان کی جسمانی حد’ سمجھا جاتا ہے۔
کے ٹو کو اب تک 400 سے بھی کم افراد نے سر کیا ہے، جن میں سے صرف 21 خواتین ہیں اور 30 سالہ ثمینہ بیگ اس خطرے سے اچھی طرح واقف ہیں۔
وہ 2013ء میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی پہلی پاکستانی اور مسلم خاتون بنی تھیں۔ 2014ء میں انہوں نے 24 سال کی عمر میں ‘سات چوٹیاں’ سر کرنے کا کارنامہ انجام دیا اور ایسا کرنے والی پہلی پاکستانی بنیں، یعنی ہر بر اعظم کی بلند ترین چوٹی سر کرنے والی پہلی پاکستانی۔ 2015ء کے موسم گرما میں اُن کی نظریں کے ٹو پر تھیں لیکن بازو زخمی ہونے اور کمر میں شدید تکلیف کی وجہ سے انہیں کیمپ 1 سے ہی واپس آنا پڑا تھا۔ لیکن ثمینہ بیگ اور مقامی کوہ پیماؤں کو صرف ریکارڈ ہی نہیں، اور بھی بہت کچھ چاہیے۔
دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 5 پاکستان میں ہیں، جن کی بلندی 8 ہزار میٹرز سے زیادہ ہے جبکہ یہاں 7 ہزار میٹرز سے زیادہ بلند چوٹیوں کی تعداد تو 108 ہے۔ اس کے باوجود کوہ پیمائی کے حوالے سے پاکستان اتنا معروف نہیں ہے۔ جون 2013ء میں دنیا کے نویں بلند ترین پہاڑ نانگا پربت پر پاکستانی طالبان نے 10 غیر ملکی کوہ پیماؤں اور ایک پاکستانی گائیڈ کو قتل کر دیا تھا۔ اس حملے سے پاکستان کی عالمی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی لیکن گزشتہ چند سالوں سے غیر ملکی کوہ پیما پاکستان واپس آ رہے ہیں اور 16 جنوری 2021ء کو کے ٹو کو سردیوں میں سر کرنے کی کامیاب کوشش اس کا ایک اظہار ہے۔
کے ٹو 8 ہزار میٹرز سے بلند پہاڑوں میں واحد تھا جسے کبھی سردیوں کے مہینے میں سر نہیں کیا جا سکا تھا، لیکن رواں سال نیپال کی ایک ٹیم نے ایسا کر دکھایا۔ اس مہم کے لیے مختلف ممالک کے تقریباً 70 کوہ پیما پاکستان میں موجود تھے لیکن ان میں پاکستانیوں گی تعداد بہت کم تھی کیونکہ مقامی کوہ پیمائی کا مسئلہ سرمایہ بھی ہے اور جغرافیہ بھی۔
ملک کے بلند پہاڑ شمالی علاقوں میں ہیں جہاں ٹریکنگ اور کوہ پیمائی عام زندگی کا حصہ ہے لیکن ملک کی بیشتر آبادی زیریں میدانی علاقوں میں رہتی ہے جن کے لیے یہ اتنا اہم کھیل نہیں ہے۔ ثمینہ بیگ کہتی ہیں کہ "کوہ پیمائی پاکستان میں سب سے زیادہ نظر انداز کیا جانے والا کھیل ہے۔ اس کے لیے سرمایہ حاصل کرنا سب سے مشکل ہے۔”
ثمینہ کو اپنی کامیاب مہمات پر حکومت کی مالی مدد ابھی تک نہیں ملی، جبکہ کارپوریٹ اسپانسرز بھی صرف مغربی کوہ پیماؤں کو سپورٹ کرتے ہیں۔ "ہمارے ملک میں ادارے سمجھتے ہیں کہ کرکٹ ہی واحد کھیل ہے۔” انہوں نے بتایا کہ ان کی ایورسٹ اور ‘سات چوٹیوں’ کی مہم کو بھی نجی افراد نے مدد فراہم کی۔
الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری کہتے ہیں کہ "کوہ پیمائی آسان کھیل نہیں ہے، پھر یہ بہت مہنگا بھی ہے۔ 7 ہزار میٹر کی ایک چوٹی سر کرنے پر 10 ہزار ڈالرز خرچ ہوتے ہیں جبکہ 8 ہزار میٹرز کی چوٹیوں پر تو اوسط 50 ہزار ڈالرز لگتے ہیں۔ اس میں تربیت، گائیڈز اور سامان شامل ہے۔”
کوہ پیما یوسف خواجہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں تربیت تو دیگر ممالک سے نسبتاً سستی ہے، لیکن البتہ یہ ان کی صاحبزادی سلینا خواجہ کے کوہ پیمائی کے عزائم کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں۔
2019ء میں صرف 10 سال کی عمر میں سلینا نے سپانتک (گولڈن پیک) سر کر کے سب سے کم عمری میں 7 ہزار میٹر سے زیادہ بلند کوئی چوٹی سر کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اب جولائی میں وہ 8,047 میٹر بلند براڈ پیک سر کرنا چاہتی ہیں۔ ان کا خواب ہے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی کم عمر ترین کوہ پیما بننا، اور وہ نیپالی حکومت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ انہیں اجازت نامہ جاری کیا جائے، اس کے باوجود کہ اب کم از کم عمر 16 سال قرار دی گئی ہے۔
سلینا اور ان کے والد پاکستانی اور کینیڈین شہریت رکھتے ہیں، لیکن وہ تربیت کے لیے پاکستان میں رہتے ہیں اور دونوں ممالک کی نمائندگی کرتے ہوئے کوہ پیمائی کرتے ہیں۔ ماضی میں کی گئی مہمات کا خرچہ تو خاندان نے خود اٹھایا لیکن اب ان کے جو منصوبے ہیں، وہ کافی مہنگے ہیں۔
سلینا کی نظریں ثمینہ بیگ کی مہم پر بھی ہیں، کہتی ہیں کہ میرے خیال میں ثمینہ بیگ کی مہم کامیاب ہوگی کیونکہ وہ بہت مضبوط ہیں اور ان کی بھرپور تیاری بھی ہے۔
ثمینہ بیگ کی پوری زندگی انہی پہاڑوں میں گزری ہے، کیونکہ ان کا تعلق شمشال سے ہے، سطح سمندر سے 3 ہزار میٹر بلندی پر واقع ایک گاؤں، جہاں 2003ء سے پہلے سڑک تک نہیں جاتی تھیں اور بجلی یہاں 2018ء میں آئی ہے۔ یہاں کے لوگ کوہ پیمائی کے لیے مشہور ہیں۔ پاکستان میں موجود 8 ہزار میٹرز سے بلند پانچویں چوٹیاں سر کرنے والے پہلے پاکستانی رجب شاہ کا تعلق بھی شمشال سے ہی تھا۔
30 سالہ ندیمہ سحر کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہیں۔ وہ قریبی پہاڑوں پر یورپی خواتین کو چڑھتے دیکھتی تھیں اور سوچتی تھیں کہ آخر وہ ایسا کیوں نہیں کر سکتیں؟ "آخر ہم اپنا پرچم ان پہاڑوں پر کیوں نہیں لہرا سکتے؟ اگر وہ ایسا کر سکتی ہیں تو ہم بھی کر سکتے ہیں۔”
اور بالآخر انہوں نے ایسا کر دکھایا، وہ 2012ء میں پاکستان کی اس 9 رکنی خواتین ٹیم کا حصہ تھیں کہ جس نے صرف 6 دن میں قراقرم کے سلسلے میں واقع 6 ہزار میٹرز سے زیادہ بلند تین چوٹیاں سر کر کے کئی ریکارڈز قائم کیے۔
لیکن بڑے ریکارڈ پر ثمینہ بیگ کی نظریں ہیں اور انہیں امید ہے کہ وہ اس ریکارڈ کو پا لیں گی اور مالی سپورٹ کے حوالے سے انہیں بالآخر ایک اچھی خبر مل ہی گئی۔ ملک کے شمالی علاقوں میں ٹیلی کمیونی کیشنز سہولیات فراہم کرنے والا اسپیشل کمیونی کیشنز آرگنائزیشن (SCO) اس نئی مہم کو اسپانسر کر رہا ہے۔
لیکن ثمینہ کی یہ تاریخی مہم ایک ایسے موقع پر آرہی ہے جب پاکستان کی کوہ پیما برادری شدید غم میں ہے۔ رواں ماہ کے اوائل میں تین تجربہ کار کوہ پیما، جن میں پاکستان کے محمد علی سدپارہ بھی شامل تھے، کے ٹو کو سر کرنے کی مہم کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے اور کئی دن کی ناکام تلاش کے بعد بالآخر ان کی زندگی کی امید ختم ہو گئی۔ 45 سالہ صدپارہ کے ساتھ آئس لینڈ کے جون سنوری اور چلی کے ہوان پابلو مور تھے، جنہیں آخری بار 5 فروری کو چوٹی سے 300 میٹر کے فاصلے پر دیکھا گیا تھا۔
ثمینہ بیگ کہتی ہیں کہ یہ کوہ پیما برادری کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ ہمیں پورا اندازہ ہے کہ پہاڑوں پر کیا چیلنجز درپیش آتے ہیں اور ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ ایسا ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہم اس کے لیے تیار ہیں، خاص طور پر ذہنی طور پر تیار ہیں۔ کوہ پیما ہونے کی حیثیت سے یہ ہمارے کھیل کا حصہ ہے۔”
Pingback: پاکستانی خواتین، نئی بلندیوں کی جانب گامزن - دی بلائنڈ سائڈ
Pingback: آکسیجن سلنڈر کے بغیر 8 ہزار میٹرز سے بلند چوٹی سر کرنے والی پہلی بھارتی خاتون - دی بلائنڈ سائڈ