آج سے ٹھیک 30 سال پہلے مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے دو دیہات کنن اور پوشپورہ پر قیامتِ صغریٰ گزر گئی تھی۔ ایک واقعہ جس نے مقبوضہ وادی میں خواتین کی حالتِ زار اور بھارتی فوج کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا۔ بلاشبہ 23 فروری کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہوگا، جب 1991ء میں بھارتی فوج نے ان دیہات کی 100 سے زيادہ خواتین کا ریپ کیا اور درندگی کی تمام حدیں پار کرنے کے باوجود آج تک انصاف کے کٹہرے میں نہیں آئے۔
واقعے کے 22 سال بعد مقبوضہ کشمیر کی عدالتِ عالیہ کے ایک ڈویژنل بینچ نے ایک حکم جاری کیا جس کے تحت زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کو زرِ تلافی ادا کیا جانا چاہیے، لیکن بھارتی فوج اور حکومت اب بھی انکاری ہے۔ اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں دو درخواستیں دائر ہیں، ایک ریاستی حکومت کی طرف سے اور دوسری بھارتی فوج کی جانب سے۔ عدالتِ عالیہ کے فیصلے کے خلاف حکمِ امتناعی موجود ہے اور معاملہ عدالت میں لٹکا ہوا ہے۔ 30 سال سے زیادہ گزر چکے، اس زیادتی کا نشانہ بننے والی کئی خواتین دنیا سے چلی گئیں لیکن انصاف کا دُور دُور تک نہیں پتہ۔
کئی آزاد تجزیہ کار اور فیکٹ فائنڈنگ مشنز کہتے کہ سانحہ کنن پوشپورہ کے بعد انصاف کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھا گیا، اس واقعے کو بُری طرح نظر انداز کیا گیا اور اقدامات اٹھانا تو کجا اس واقعے کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔
اعزاز یافتہ کتاب "?Do you remember Kunan Poshpora” اس عظیم سانحے میں پیش آنے والے واقعات کو تفصیل سے بیان کرتی ہے، جس کے مطابق اس رات درجنوں خواتین کا ریپ کیا گیا، نوعمر لڑکیوں یہاں تک کہ معذور اور حاملہ خواتین کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ ماؤں کو ان کی بیٹیوں کے سامنے اور بزرگ خواتین کو ان کی پوتیوں اور نواسیوں کے سامنے درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔
اس کتاب میں کئی خواتین کے بیانات موجود ہیں جن میں سے ایک نے بتایا کہ اسے تین فوجیوں نے پکڑا اور پھر 8 سے 10 فوجیوں نے باری باری اس کے ساتھ ریپ کیا۔ ایک خاتون نے بتایا کہ اس وقت ان کے حمل کا آخری مہینہ چل رہا تھا لیکن تمام تر التجاؤں کے باوجود فوجیوں نے ان کے ساتھ ریپ کیا اور بعد میں ان کا بچہ ٹوٹے ہوئے بازو کے ساتھ پیدا ہوا۔ ایک 63 سالہ خاتون کلثوم بانو (فرضی نام) کو 4 فوجیوں نے دو دوسری خواتین کے سامنے ریپ کیا۔ ایک خاتون نے بتایا کہ پوری رات انہوں نے ہمیں لباس نہیں پہننے دیا اور اتنی سردی میں ہم ٹھٹھرتے رہے لیکن وہ ہمیں بندوقوں کے بٹ سے مارتے اور ہمارے ساتھ ریپ کرتے رہے۔ کوئی ہماری مدد کرنے والا اور چیخ و پکار سننے والا نہیں تھا۔
اس سانحہ عظیم میں ریپ کا نشانہ بننے والی سب سے کم عمر لڑکی 13 سال کی تھی اور سب سے زیادہ عمر کی خاتون 80 سال کی۔
ایک طرف جہاں درجنوں خواتین کو اس درندگی کا نشانہ بنایا گیا تو دوسری جانب مرد بھی فوج کے بدترین تشدد کا نشانہ بنے۔ انہیں اپنے گھروں سے باہر ایک جگہ پر جمع کر کے بُری طرح زد و کوب کیا گیا۔ ظاہری زخم تو بھر گئے ہوں گے لیکن اس واقعے کے ذہنی و نفسیاتی اثرات آج تک کئی نسلوں کو متاثر کیے ہوئے ہیں۔
اس کے باوجود کشمیری خواتین کا حوصلہ دیکھیں کہ انہوں نے اس ظلم کو خاموشی سے نہیں سہا بلکہ آج بھی اس کے خلاف انصاف کا پرچم سر بلند کیے ہوئے ہیں۔ 2014ء سے 23 فروری کا دن کشمیری خواتین کے لیے یومِ مزاحمت کے طور پر منایا جاتا ہے۔
Pingback: مقبوضہ کشمیر: تین دہائیوں میں بھارتی فوج کے کشمیری خواتین پر 11,245 جنسی حملے - دی بلائنڈ سائڈ