تقریباً ایک سال پہلے کووِڈ-19 کی وبا سامنے آنے کے بعد اب تو صاف ظاہر ہے کہ دنیا کو محض صحت کے بحران کا سامنا نہیں ہے۔ گزشتہ کئی نسلوں کا سب سے بڑا بحران بالآخر ایک معاشی و سماجی بحران میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ایک سال بعد ایک دردناک المیہ یہ ہے کہ دنیا کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بھی وبا کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں لکھا ہے کہ کووِڈ-19 نے موجودہ تقسیم، شکستگی اور عدم مساوات کو مزید گہرا کیا ہے اور نئی دراڑیں پیدا کی ہیں جن میں انسانی حقوق کے معاملات بھی نمایاں ہیں۔ وبا نے بنی نوع انسان کے باہم مربوط ہونے اور ہر قسم کے انسانی حقوق کو آشکار کر دیا ہے: شہری، ثقافتی، معاشی، سیاسی اور سماجی۔ جب ان میں سے کسی بھی قسم کے حقوق حملے کی زد میں آتے ہیں، دوسرے خود بخود خطرے میں آ جاتے ہیں۔
وائرس خوب پھیلا غربت، امتیاز، ہمارے قدرتی ماحول کی تباہی اور دیگر انسانی حقوق کی ناکامیوں نے ہمارے معاشروں میں زبردست کمزوریاں پیدا کیں۔ لاکھوں خاندانوں کی زندگیاں بدل کر رہ گئیں – روزگار کے مواقع گئے، قرضے بڑھ گئے اور آمدنی میں واضح کمی آئی۔
انہوں نے لکھا ہے کہ وبا کے دوران صفِ اول میں کام کرنے والے کارکن، معذور، بزرگ، خواتین، لڑکیاں اور اقلیتیں خاص طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوئیں۔ چند ہی مہینوں میں صنفی مساوات پر دہائیوں کی پیشرفت کا خاتمہ ہو گیا۔ صفِ اول میں کام کرنے والے کارکنوں میں اکثریت خواتین کی ہے اور کئی ملکوں میں ان کا تعلق نسلی طور پر پسماندہ گروہوں سے ہے۔
عورتوں کے کندھوں پر گھروں میں دیکھ بھال کا بوجھ بڑھ گیا۔ خواتین پر تشدد کی تمام اقسام میں زبردست اضافہ ہوا، آن لائن استحصال سے لے کر گھریلو تشدد، انسانی اسمگلنگ، جنسی استحصال اور بچپن کی شادی تک ہر پہلو سے۔
کئی دہائیوں بعد پہلی بار انتہائی غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نو عمر افراد جدوجہد کرتے دکھائی دے رہے ہیں، بچے اسکولوں سے نکل رہے ہیں اور ان کی ٹیکنالوجی تک رسائی بھی کم ہے۔
انتونیو گوتیریس نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا اخلاقی ستم ویکسینیشن کے عمل میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں ناکامی ہے۔ دنیا کی 75 فیصد کووِڈ-19 ویکسین اس وقت صرف 10 ممالک کے پاس ہے۔ جبکہ 130 سے زیادہ ملکوں کو ابھی تک ویکسین کی ایک خوراک تک نہیں ملی۔
اگر دنیا کے ان غریب ممالک میں وائرس کو جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے دیا گیا، تو یہ نت نئی صورتیں اختیار کرتا رہے گا۔ وائرس کی نئی اقسام زیادہ تیزی سے پھیلیں گی، زيادہ مہلک ہوں گی اور ان سے ممکنہ طور پر موجودہ ویکسینز اور تشخیص کی مؤثریت بھی خطرے میں آ جائے گی۔ اس سے وبا کا دورانیہ بہت زیادہ بڑھ سکتا ہے، جس سے وائرس کو دنیا کے امیر ممالک کی واپس آنے کا موقع ملے گا اور یوں عالمی معیشت کی بحالی میں مزید تاخیر ہوگی۔
وائرس سیاسی و شہری حقوق کو بھی متاثر کر رہا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر شہری ماحول کو بھی مزید محدود کر رہا ہے۔ وبا کو بہانہ بناتے ہوئے چند ممالک میں حکام نے سخت ردعمل دکھائے اور ہنگامی اقدامات اٹھائے ہیں تاکہ اختلاف رائے رکھنے والے حلقوں کو دبایا جائے، بنیادی آزادی کو جرم قرار دیا جائے، آزاد صحافت کو خاموش کیا جائے اور غیر سرکاری انجمنوں کی سرگرمیوں کو محدود کیا جائے۔
انسانی حقوق کا دفاع کرنے والے، صحافی، وکلا، سیاسی کارکن – یہاں تک کہ طبّی ماہرین کو بھی گرفتار کیا گیا، ان پر مقدمے چلائے گئے اور وبا کے خلاف حکومت کے ردعمل پر تنقید کرنے پر انہیں ڈرایا دھمکایا گیا اور ان کی نگرانی کی گئی۔ وبا کے حوالے پابندیوں کو انتخابی عمل کو پامال کرنے اور حزبِ اختلاف کی آواز کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا۔
اسی دوران زندگی بچانے والی کووِڈ-19 معلومات کو چھپایا گیا اور خطرناک غلط معلومات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا – یہاں تک کہ ان کی جانب سے بھی جو اقتدار میں ہیں۔
شدت پسندوں – بشمول سفید فام نسل پرستوں اور نیو نازیوں – نے وبا کو سماجی تفریق اور سیاسی و ثقافتی سازشوں کے ذریعے اپنی حیثیت کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔
وبا نے امن کو مزید مشکل بنا دیا، مذاکرات کرنے کے مواقع محدود ہوئے، انسانی ضروریات میں کہیں اضافہ ہوا اور انسانی حقوق کے چیلنجز کے حوالے سے تنازعات کے حل کے لیے پیشرفت میں کمی آئی۔
انہوں نے کہا کہ کووِڈ-19 نے انسانی حقوق کے حوالے سے دو بنیادی سچ واضح کیے۔ پہلا انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہم سب کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ دوسرا، انسانی حقوق آفاقی ہیں اور سب کا تحفظ کرتے ہیں۔
وبا کے خلاف ایک مؤثر ردعمل اتحاد اور تعاون پر مبنی ہونا چاہیے۔ تقسیم کرنے والے، آمرانہ اور قوم پرستانہ طریقے ایک عالمی خطرے کے خلاف نہیں چلنے والے۔ وبا نے جہاں انسانی حقوق پر روشنی ڈالی ہے، وہیں اس سے بحالی تبدیلی کے عمل کی جانب رفتار بڑھانے کا موقع بھی دیتی ہے۔ کامیابی کے لیے ہمیں اپنے طریقوں کو انسانی حقوق کی نظر سے دیکھنا ہوگا۔
پائیدار ترقیاتی اہداف – جو انسانی حقوق کی بنیاد پر کھڑے ہیں – ہمیں جامع اور پائیدار معیشتوں اور معاشروں کے قیام کے لیے بنیادی ڈھانچا فراہم کرتے ہیں جن میں سب کے لیے لازمی صحت کی فراہمی بھی شامل ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ بحالی کے اس عمل میں آئندہ نسلوں کے حقوق، 2050ء تک کاربن اخراج کو ختم کر کے موسمیاتی تبدیلی پر روک لگانا اور حیاتی تنوّع حاصل کرنا بھی شامل ہونا چاہیے۔ انسانی حقوق کے لیے عملی اقدامات کا میرا مطالبہ بحران کے خلاف ردعمل، صنفی مساوات، عوامی شمولیت، موسمیاتی عدل اور پائیدار ترقی میں انسانی حقوق کو مرکزی حیثیت دیتا ہے۔
یہ انسانی حقوق کو نظر انداز کرنے کا وقت نہیں ہے؛ یہ ایسا وقت ہے کہ جس میں پہلے سے کہیں زیادہ انسانی حقوق کی ضروری ہے تاکہ ہم اس بحران سے نکل سکیں اور یہی ہمیں جامع اور پائیدار حل اور دیرپا امن حاصل کرنے میں مدد دے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب ایک کشتی کے سوار ہیں۔ وائرس ہم سب کے لیے خطرہ ہے۔ انسانی حقوق سب کو آگے لے جائیں گے۔ بحران کے اس وقت میں انسانی حقوق کا احترام کر کے ہم آج کی ہنگامی حالت اور کل کی بحالی کے لیے زیادہ مؤثر اور منصفانہ حل تیار کریں گے۔
مجھے یقین ہے کہ ایسا ممکن ہے – اگر ہم پُر عزم ہو جائیں اور مل کر کام کریں۔
جواب دیں