حملوں اور ہراسگی کا خوف، یورپی خواتین کی اکثریت کی آمدورفت محدود

یورپ کی نوجوان خواتین کی اکثریت نے حملوں یا ہراسگی کے خوف کی وجہ سے اپنی آمد و رفت یا کسی جگہ پر گزارے گئے وقت کو محدود کر رہی ہے۔

یہ انکشاف یورپی یونین کے ادارے فنڈامینٹل رائٹس ایجنسی (FRA) کی ایک نئی رپورٹ میں ہوا ہے جس کے مطابق 16 سے 29 سال کی عمر کی 83 فیصد یورپی خواتین کسی جگہ پر گزارے گئے وقت بلکہ مختلف مقامات کے لیے آمد و رفت کو بھی محدود کر چکی ہیں۔

یہ رپورٹ یورپی یونین کے علاوہ برطانیہ اور شمالی مقدونیہ میں تقریباً 35 ہزار خواتین پر مشتمل سروے کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔

رپورٹ کی مصنفہ سیمی نیوالا کا کہنا ہے کہ ہم نے دیکھا کہ زیادہ تر خواتین کو جنسی ہراسگی کا سامنا عوامی مقامات پر ہوتا ہے اور عموماً عورت ایسے مرد کے ہاتھوں ہراساں کی جاتی ہے، جسے وہ نہیں جانتی۔

ڈائریکٹر FRA مائیکل او فلیرٹی کا کہنا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار اور ایسے واقعات کا سامنا کرنے والی خواتین کی حقیقی تعداد میں فرق ہی یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ یورپی یونین میں یہ جرائم کس حد تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان نتائج سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جرائم کا نشانہ بننے والی خواتین کے حقوق ادا کرنے اور ان کو سپورٹ کرنے کے لیے حکومت کو اپنی کوششیں بڑھانی چاہئیں۔

ایسے جرائم کا نشانہ بننے والی خواتین عموماً اپنے حقوق سے ناآشنا ہوتی ہیں یا پھر ان کی آواز سنی ہی نہیں جاتی۔ وہ جوابی ردعمل کے خوف سے یا مجرم کی دھمکیوں میں آ کر جرائم کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عمل میں نہیں لاتیں۔

اگر رپورٹ کو تفصیلاً دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سروے کے پانچ سالہ دورانیے میں یورپی یونین میں ہر 10 میں سے تقریباً ایک خاتون (9 فیصد) کو تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔ یہ شرح مختلف ملکوں میں 3 سے 18 فیصد تک ہے۔ جنسی ہراسگی کی شرح اوسطاً 41 فیصد ہے، جو مختلف ملکوں میں 15 سے 62 فیصد تک نظر آئی۔ رپورٹ مطالبہ کرتی ہے کہ ایسی خواتین جن پر حملے یا تشدد کا خطرہ زیادہ ہو، انہیں مناسب معلومات، مدد اور تحفظ ملنا چاہیے۔

رپورٹ کے مطابق جسمانی تشدد کا نشانہ بننے والی ایک تہائی سے زیادہ خواتین (37 فیصد) کو گھر میں تشدد کا شکار ہوتی ہیں، جس کے 69 فیصد خواتین پر سنگین ذہنی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ جنسی ہراسگی کے ہر 4 میں سے 3 واقعات میں مرتکب ایسا شخص ہوتا ہے جس کو عورت نہیں جانتی اور ایسے واقعات زیادہ تر عوامی مقامات پر ہوتے ہیں۔

رپورٹ مطالبہ کرتی ہے کہ معاملہ قانونی پابندیوں، تعلیم اور تربیت کا ہو اور جرم کا نشانہ بننے والی خاتون کی حفاظت اور اسے سپورٹ کرنے کا ہو تو یورپی یونین کے ممالک صنفی لحاظ سے ایک حساس اپروچ اپنائیں۔ اس کے علاوہ مردوں میں شعور اجاگر کر کے بھی جرائم کو روکنے کے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔

رپورٹ کے مطابق جسمانی حملے کے ایک تہائی سے بھی کم واقعات رپورٹ کیے جاتے ہیں اور ہراسگی کے واقعات میں تو یہ شرح صرف 11 فیصد ہے۔ گو کہ مختلف ممالک میں واقعات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علم میں لانے کی شرح مختلف ہے جو مختلف ثقافتی پسِ منظر اور اداروں پر اعتماد کی شرح کو ظاہر کرتی ہے۔ زیادہ عمر کے، کم تعلیم یافتہ یا بڑی مشکل سے مالی گزر بسر کرنے والے قانونی پیچیدگیوں میں نہیں پڑتے۔ اس لیے تمام ملکوں کو جرائم کو رپورٹ کرنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور اس عمل کو آسان بنانا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے