کھلاڑیوں اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک، ایتھلیٹ ثمر خان سخت ناراض

شعبہ چاہے کھیل کا ہو یا کاروبار کا، سیاست اور سائنس ہوں یا خدمتِ خدمت، پاکستانی خواتین ہر شعبے میں خود کو منوا رہی ہیں لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورت کو صنفِ نازک سمجھا جاتا ہے اور اسے مردوں سے کم تر گردانا جاتا ہے، خواتین کی کامیابیوں کو شاذ و نادر ہی سراہا جاتا ہے۔

سماجی شعور نہ ہونے کی وجہ سے کھیلوں سے وابستہ خواتین کو بھی ایسے ہی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مشہور ایڈونچر ایتھلیٹ ثمر خان بھی اس سے شاکی ہیں، جنہوں نے اپنی ایک حالیہ وڈیو میں مقامی میڈیا کے ساتھ اپنا ذاتی تجربہ بیان کیا ہے۔

ثمر خان پاکستان کی معروف ایڈونچر ایتھلیٹ ہیں جو بیافو گلیشیئر پر سائیکل چلانے کا انوکھا کارنامہ بھی انجام دے چکی ہیں اور 2017ء میں 6,250 میٹرز بلند برپوچو پیک کو بھی سر کر چکی ہے۔ اس کارنامے پر اس چوٹی کا نام ہی ‘ثمر پیک’ رکھ دیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ بیرونِ ملک بھی پاکستان کا نام روشن کر چکی ہیں جن میں افریقہ کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ کلیمنجارو پر سائیکل چلانے کا کارنامہ بھی شامل ہے۔ وہ صرف کھیل میں ہی نمایاں نہیں بلکہ فزکس میں ماسٹرز کی ڈگری بھی رکھتی ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ثمر خان اور ان جیسی ایتھلیٹس کو وہ احترام اور وہ کوریج نہیں ملتی جس کی وہ حقدار ہیں۔

ثمر خان نے اس وڈیو میں ایک ٹی وی شو کا ذکر کیا ہے، جس میں انہیں بلایا گیا تھا لیکن میزبان کو نہ ان کا پورا نام معلوم تھا اور نہ ہی ان کا ویسے تعارف کروایا گیا، جیسے ان سے پہلے ایک مرد ایتھلیٹ کا کروایا گیا تھا۔ ثمر سے کہا گیا کہ وہ اپنا تعارف خود کروا دیں، یا شو میں شرکت نہ کریں۔ انہوں نے وڈیو میں ایک اسپورٹس شو کا ذکر بھی کیا کہ جس میں کھلاڑیوں کو بنیادی سہولیات تک نہیں دی گئی بلکہ اہمیت صرف ان لوگوں کو دی گئی جن کی سوشل میڈیا پر فالوونگ زیادہ ہے۔

ثمر خان نے بتایا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ پچھلے چار، پانچ سال کے سفر میں ان کے اور دیگر ایتھلٹیس کے ساتھ ایسا کئی مرتبہ ہو چکا ہے کہ اسپورٹس کے ایونٹس سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے ہاتھوں ہائی جیک ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا پیغام صرف یہی ہے کہ اگر فین فالوونگ ہی سب کچھ ہے تو انہی نام نہاد انفلوئنسرز کو ہی چیمپیئن شپس میں بھیجا جائے، اولمپکس میں بھی بھیجیں تاکہ وہ گولڈ میڈلز لے کر آئیں، پارلیمنٹ میں بٹھائیں تاکہ وہ ملک کے لیے فیصلے کر سکیں، ٹی وی شوز پر بطور تجزیہ کار بلائیں تاکہ وہ صنفی مساوات، امن و امان اور موسمیاتی تبدیلی جیسے موضوعات پر بات کریں کیونکہ فالوورز بڑھنے سے ان پر دانائی اور علم کا نزول ہو جاتا ہے اور انہیں ہر پروفیشنل فیلڈ کا تجربہ مل جاتا ہے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ بطور قوم ہماری ترجیحات ایسی ہو گئی ہیں کہ سب کچھ ‘سستی تفریح’ اور ‘فین فالوونگ’ ہے۔

اس کے علاوہ اپنی مختلف انسٹاگرام پوسٹس میں ثمر خان نے سرمائی کھیلوں اور ان میں شریک کھلاڑیوں کے حقوق کے حوالے سے بات کی اور کہا کہ "میری پچھلی پوسٹ کا مقصد چند لوگوں اور اداروں کے بے نقاب کرنا تھا کہ جو کھیل کے شعبے کو دوسرے درجے کا سمجھتے ہیں۔”

انہوں نے ‘ریڈ بُل ہوم رن’ مقابلوں کی کچھ تصویریں بھی شیئر کیں کہ جس میں انہوں نے سنو بورڈنگ کیٹیگری میں حصہ لیا تھا اور اپنے ثقافتی لباس میں شرکت کی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے