پاکستان کے بیشتر ڈراموں میں خواتین کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور خطے کے دیگر ممالک کے برعکس ان میں خواتین کو نہ صرف حقیقت کے قریب تر بلکہ ترقی پسند کردار میں دکھایا جاتا ہے۔
ایک طرف جہاں بھارت کے ڈراموں میں عورت کی زندگی مردوں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے، پاکستانی ڈراموں میں خواتین کی اپنی انفرادی شناخت و جداگانہ حیثیت نظر آتی ہے۔ زندگی کی جدوجہد اپنی جگہ لیکن انہیں محض مردوں کی خدمت گزار کے روپ میں پیش نہیں کیا جاتا۔ ان کا کردار ہر وقت رونے دھونے اور شکوے شکایت کرنے کے بجائے حالات کا مقابلہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔
یہ پانچ پاکستانی ڈرامے ایسے ہیں جو ‘بے بس عورت’ کے تاثر کا خاتمہ کرتے ہیں، اور عورتوں کو ایک مضبوط اور خود مختار حیثیت میں دکھاتے ہیں۔
1۔ باغی
‘باغی’ قندیل بلوچ کی زندگی پر مبنی ڈرامہ ہے، سوشل میڈیا پر ایک متنازع شخصیت کہ جنہیں ان کے بھائی نے ‘غیرت’ کے نام پر قتل کر دیا تھا۔ ڈرامہ مرکزی کردار فوزیہ (صبا قمر) کو بے بس عورت کے روایتی روپ میں پیش نہیں کرتا بلکہ ایسی شخصیت کے طور پر دکھاتا ہے جو عزم رکھتی ہے۔ وہ اپنے ظالم شوہر کے چنگل سے نکلتی ہے اور پھر دوبارہ کسی کو خود پر ظلم نہیں کرنے دیتی۔ ‘باغی’ غیرت کے نام پر قتل کے مسئلے پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔ وہ اس تصور کو چیلنج کرتا ہے کہ معاشرے کی عزت کا انحصار عورت کے جسم پر ہے۔ ڈرامے کا اختتام تو افسوس ناک ہے لیکن یہ سب کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ایک مرد کو غیرت کے نام پر کسی کو قتل کرنے کا اختیار حاصل ہے؟ بالخصوص ایسے معاشرے میں کہ جہاں حقیقی منصف خدا کی ذات کو سمجھا جاتا ہے۔
2۔ مجھے جینے دو
‘مجھے جینے دو’ کی کہانی کئی حوصلہ مند خواتین کی زندگیوں کے گرد گھومتی ہے۔ وہ بہت زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں ہیں لیکن حوصلے، جرات اور بہادری کی علامت ہیں۔ یہ ڈرامہ پاکستان کے سنجیدہ معاشی و سماجی مسائل سامنے لاتا ہے، خاص طور پر بچپن کی شادی کو۔ شاہینہ نے اس تاثر کا خاتمہ کیا ہے کہ خواتین محض حاسد اور کینہ پرور ہوتی ہیں۔ مرکزی کردار شاہینہ اس لڑکی کے لیے بھی جان دینے کو تیار ہوتی ہے، جو اس کے شوہر کی پہلی بیوی ہے۔ گاؤں کی ڈاکٹر یاسمین کا کردار بھی بہت اہم ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ عورت کس طرح دیگر خواتین کے لیے کھڑی ہوتی ہے اور ان کے حق کے لیے لڑتی ہے۔
3۔ آخری اسٹیشن
‘آخری اسٹیشن’ سات لڑکیوں کی کہانی ہے جو سب جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بنی ہیں۔ ان میں ایک اور مشترک چیز یہ ہے کہ وہ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے کھڑی ہیں۔ ڈرامہ پاکستانی خواتین کو درپیش کئی مسائل ظاہر کرتا ہے، چاہے وہ ظالم شوہر کے چنگل سے نکلنا ہو یا پدر شاہی نظام سے کہ جو ایک غیر شادی شدہ عورت کو ‘بوجھ’ سمجھتا ہے۔ کہانی میں کوئی کردار ایسا نہیں ہے جو عورت کو روایتی مظلوم اور بے بس روپ میں دکھاتا ہو جو اپنے مسائل خود ختم نہیں کر پاتا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے بدترین ایام دیکھے لیکن کبھی امید کا دامن نہیں چھوڑا۔ یہ ہیں وہ کردار جو عورتوں کی حقیقی نمائندگی کرتے ہیں۔
4۔ خود غرض
یہ ڈرامہ محبت، بے وفائی، خود غرضی اور اس کے نفسیاتی اثرات کو بیان کرتا ہے، جس میں خواتین کے کردار بہت متاثر کُن ہیں۔ آئرہ ایک ‘مثالی بہو’ کا بالکل اُلٹ ہیں۔ ان کے اپنے کیریئر پلانز ہیں اور وہ اپنے سسرالیوں کی جانب سے مجبور کیے جانے کے باوجود ان منصوبوں کو پسِ پشت نہیں ڈالتیں۔ آئرہ لاکھوں خواتین کے لیے رول ماڈل کا کردار ادا کرتی ہیں، جو انہی مسائل سے دوچار ہیں۔ ‘خود غرض’ بیان کرتا ہے کہ خواتین کے پاس اپنے انتخاب کا حق ہونا چاہیے، ایسا حق جو پاکستان ہی کی نہیں بلکہ دنیا بھر کی خواتین کو ملنا ضروری ہے۔
5۔ یقین کا سفر
یہ مقبول ترین پاکستانی ڈراموں میں سے ایک ہے جو اپنے ناظرین کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ مرکزی کردار زوبیہ ایک ظالم گھرانے سے فرار اختیار کرتی ہے۔ پھر وہ شخص اس سے بے وفائی کر جاتا ہے جو اس صورت حال کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے لیکن وہ پھر بھی ڈٹی رہتی ہے اور جرات کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس کا کردار ہمیں درس دیتا ہے کہ اگر کبھی ہمیں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے تو ایک بہتر زندگی کے لیے کبھی ہمت نہ ہاریں اور امید کا دامن نہ چھوڑیں۔ یہ ڈرامہ روشنی ڈالتا ہے کہ اگر خواتین میں عزم ہو تو وہ خود کو مالی و جذباتی طور پر خود مختار بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
جواب دیں