دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں امدادی سرگرمیاں کرنے والی بلند حوصلہ خواتین

شمیم بانو ایک ادھیڑ عمر اسکول ٹیچر ہیں اور حال ہی میں کابل میں 15 دن گزارنے کے بعد واپس آئی ہیں جہاں انہوں نے افغان خواتین کو سرچ اینڈ ریسکیو کی تربیت دی۔ اس تربیت میں رسیوں اور دیگر آلات کا استعمال کرتے ہوئے پہاڑوں پر چڑھنا اور دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرنا بھی شامل تھا کہ جہاں آپ کا ایک غلط قدم ایک بہت بڑے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہڈی ٹوٹنے، سر گردن یا پشت پر چوٹ سے زخمی ہونے والے کی مدد کرنا بھی تربیت کا حصہ تھا۔

شمیم بانو کو 2008ء میں سرچ اینڈ ریسکیو رضاکار کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ ٹرینر کی حیثیت سے اپنی مہارت کو بہتر بنانے کے لیے ماہانہ مشقوں میں بھی حصہ لیتی ہیں۔

گلگت بلتستان وہ خطہ ہے کہ جہاں دنیا کے تین بلند ترین پہاڑی سلسلے یعنی ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش ملتے ہیں۔ یہاں 7 ہزار میٹرز سے زیادہ بلند 50 سے زیادہ چوٹیاں ہیں بلکہ پانچ تو ایسی ہیں جن کی بلندی 8 ہزار میٹرز سے بھی زیادہ ہے۔ ان میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے-ٹو بھی شامل ہے۔ پاکستان کے کئی اہم دریا اس علاقے سے گزرتے ہیں، جیسا کہ دریائے سندھ اور دریائے گلگت جبکہ سینکڑوں گلیشیئرز بھی یہاں ہیں۔

‘ڈان’ کی ایک رپورٹ کے مطابق خوبصورت قدرتی مناظر رکھنے والا یہ خطہ قدرتی آفات کی بھی زد میں رہتا ہے مثلاً زلزلے، برفانی اور مٹی کے تودے گرنے اور گلیشیئر کی جھیل پھٹنے جیسے واقعات، جن سے لوگوں کی زندگی بدل کر رہ جاتی ہے۔

شمیم بانو ان 50 ہزار والنٹیئرز میں سے ایک ہیں جن کی آغا خان ایجنسی فار ہیبیٹیٹ پاکستان (AKAH-P)  نے تربیت کی ہے۔ ان رضاکاروں میں سے آدھی خواتین ہیں۔ مقامی برادریوں میں مؤثر انداز سے کام کرنے کے لیے خواتین رضاکاروں کی ٹیمیں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔

انہی رضاکاروں میں کریم آباد کی 40 سالہ نرس بی بی نصرت بھی شامل ہیں۔ شمیم بانو کی طرح وہ بھی خواتین کو ان ٹیموں کا اہم حصہ بنانے کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔

شمیم بانو نے اپنا پہلا ریسکیو مشن 2010ء میں کیا تھا، جب وادئ ہنزہ میں ایک بڑا پہاڑی تودہ گرا تھا جس نے دریائے ہنزہ کا راستہ روک دیا تھا۔ دریا کا راستہ رکنے سے یہاں ایک بہت بڑی جھیل بن  گئی جسے اب عطا آباد جھیل کہتے ہیں۔ اس قدرتی آفت کے نتیجے میں 6 ہزار افراد بے گھر ہوئے تھے کہ جن کے گاؤں، باغات، کھیت اور اسکول پانی میں ڈوب گئے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ پہلی بار مجھے حقیقت کا سامنا کرنا پڑا اور لاشوں کا بھی۔

نصرت 2016ء میں سوسوم میں گرنے والے برفانی تودے کو کبھی نہیں بھول پائیں گی، جس میں 9 طلبہ جاں بحق ہوئے تھے۔ انہوں نے لاشیں سنبھالنے، بے ہوش، زخمی اور ہائپوتھرمیا کے شکار افراد کی دیکھ بھال کی اور شدید برف باری اور بارش کے باوجود دو ہفتے خیمے میں گزارے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں ایسے واقعات بھی پیش آتے ہیں کہ مرد کسی ہنگامی صورت حال میں پردہ دار خواتین کی مدد کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں شمیم بانو اور بی بی نصرت جیسی خواتین کی موجودگی کسی نعمت سے کم نہیں۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے