اس وقت دنیا بھر میں حکومتیں کووِڈ-19 سے نمٹنے کے لیے منصوبے بنا رہی ہیں لیکن ان تمام منصوبوں میں خواتین کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، اس امر کے باوجود کہ وبا سے سب سے زیادہ نقصان خواتین ہی کو پہنچا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی ایک اہم عہدیدار کے مطابق اس صورت حال کی وجہ سے خواتین آئندہ کئی سالوں سے اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو پائیں گی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین ‘یو این ویمن’ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فومزیلے ملامبو-اینگوکا نے کہا ہے کہ عالمی وبا کے خاص طور پر خواتین پر پڑنے والے اثرات بہت نمایاں اور شدید ہیں اور اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وبا کے دوران جو لوگ روزگار سے محروم ہوئے ان میں دو تہائی خواتین ہیں اور اس سے بھی کہ ان دنوں میں گھریلو تشدد بھی ایک ‘وبا’ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
2005ء میں جنوبی افریقہ کی پہلی خاتون نائب صدر بننے والی ملامبو-اینگوکا نے کہا کہ کئی ملکوں میں وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے خواتین صفِ اول میں موجود ہیں، اور ان شعبوں میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے کہ جو اس خطرے کا براہِ راست سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب لگتا ہے کہ آئندہ سالوں میں خواتین کو ترقی کرتے اور آگے بڑھتے دیکھنے کے بجائے ہم انہیں جلد اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا بھی نہیں دیکھ پائیں گے اور چند صورتوں میں تو بالکل بھی نہیں۔
ملامبو-اینگوکا نے مزید کہا کہ وہ افرادی قوت سے خواتین کے باہر ہونے پر تشویش میں مبتلا ہیں، بالخصوص بے ضابطہ معیشت سے، جیسا کہ گھروں میں صفائی کرنے والی، آیا کی ذمہ داریاں نبھانے والی اور بازاروں میں چھوٹی موٹی چیزیں فروخت کرنے والی خواتین۔
جوہانسبرگ میں اپنے گھر سے برطانوی روزنامے ‘ٹیلی گراف’ کو دیے گئے آن لائن انٹرویو میں ملامبو-اینگوکا نے کہا کہ کووِڈ کی وبا کے دوران ختم ہونے والی دو تہائی ملازمتیں خواتین کی تھیں۔ ہمیں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ وہ صنعتیں وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں کہ جن میں خواتین کی شرح زیادہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کووِڈ-19 رسپانس ٹیموں میں خواتین کی نمائندگی اور اگر وسیع تناظر میں دیکھیں تو حکومتوں میں بھی ان کی نمائندگی کہیں کم ہے۔ "ہم نے جن 87 ممالک کا سروے کیا ہے، ان میں سے صرف 3.5 فیصد ایسے ہیں جہاں خواتین ٹاسک فورس کا حصہ ہیں حالانکہ خواتین ان ملکوں کی آبادی کا 50 فیصد ہیں۔ باقی ملکوں میں بھی خواتین ٹاسک فورسز کا حصہ تو ہیں لیکن اقلیت ہیں، جو ناقابلِ قبول ہے۔”
ملامبو-اینگوکا نے کہا کہ اس صورت حال کا مطلب یہ ہے آپ کو صنفی لحاظ سے متوازن پالیسیاں نہیں ملیں گی۔ ایسے اقدامات اٹھتے نظر نہیں آتے کہ جو خواتین کے لیے امکانات پیدا کریں۔ اس کے شواہد بھی موجود ہیں کہ وبا کے خواتین پر بھیانک معاشی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کرونا وائرس نے صنفی عدم مساوات کو کہیں زیادہ نمایاں اور گہرا کر دیا ہے اور اس حوالے سے دہائیوں کی پیشرفت کا خاتمہ کر دیا ہے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق وبا کے دوران خواتین میں نوکری چلے جانے کی شرح 5 فیصد رہی، جبکہ مردوں میں 3.9 فیصد تھی۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 15 سے 25 سال کی عمر کی خواتین میں تو یہ شرح 8.7 فیصد ہے۔
ملامبو-اینگوکا کا کہنا ہے کہ وبا سے خواتین ایک پوری نسل متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ وبا سے پہلے بھی صنفی مساوات کی کوششیں اس رفتار سے نہیں بڑھ رہی تھیں کہ پائیدار ترقیاتی اہداف کو حاصل کر سکیں۔ یہ وہ 17 اہداف ہیں جن پر اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک نے اتفاق کیا تھا کہ وہ 2030ء تک ان کو حاصل کر لیں گے۔ ان میں غربت کا خاتمہ، ماحولیات کا تحفظ اور تمام لوگوں کو امن و خوشحالی کے ساتھ زندگی کا لطف اٹھانے کے مواقع دینا شامل ہے۔
ان اہداف میں سب سے مایوس کن رفتار خواتین کے اعلیٰ سیاسی عہدوں پر پہنچنے کے ہدف کی ہے۔ رواں ماہ یو این ویمن کے ایک تجزیے کے مطابق جس رفتار سے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، حکومت کی سطح پر صنفی مساوات قائم ہونے میں مزید 130 سال لگ جائیں گے۔
اس وقت جن ملکوں میں خواتین سربراہانِ مملکت ہیں ان کی تعداد صرف 21 ہے جبکہ 119 ممالک ایسے ہیں جن میں کبھی کوئی خاتون سربراہ نہیں رہیں۔ اس کے علاوہ خواتین صرف 14 ملکوں میں کابینہ کا کم از کم نصف ہیں۔
ملامبو-اینگوکا کہتی ہیں کہ یہ اعداد و شمار بہت مایوس کن حد تک ناکافی ہیں۔ دنیا ایسی قیادت سے محروم ہو رہی ہے جو لائق فائق بھی ہے اور دنیا کو ایسی قیادت کی ضرورت بھی ہے۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ کملا ہیرس کے نائب صدر بننے سے وہ کافی پُر امید ہیں، جو امریکی تاریخ کی پہلی خاتون نائب صدر ہیں، جبکہ صدر جو بائیڈن بھی صنفی و نسلی لحاظ سے تنوّع رکھنے والی کابینہ بنا رہے ہیں جس سے اس ہدف کی سمت میں پیشرفت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ "ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ اچھے بحران کا موقع کبھی ضائع مت کرو۔ یہی وقت ہے بڑے اور اہم فیصلے لینے کا ایسی معاشی پالیسیوں سے نمٹنے کا جس میں سب شامل نہیں ہیں اور یہ سمجھنے کا بھی کہ آخر یہ صنفی توازن اتنا زیادہ کیوں ہے؟”
جواب دیں