اردن میں ایک 20 سالہ لڑکی کی وائرل انسٹاگرام پوسٹ کے بعد ‘غیرت کے نام پر قتل’ کے خلاف قوانین میں اصلاحات کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔
اس وڈیو میں ایک لڑکی کو دیکھا جا سکتا ہے جو کہہ رہی ہے کہ "میرا نام لیان ہے اور میرا تعلق اردن سے ہے۔ مجھے امید ہے کہ انسانی حقوق کے ادارے میری بات سن رہے ہوں گے اور میری مدد کریں گے۔”
وڈیو میں لڑکی کی آواز بھرائی ہوئی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ بس رونے والی ہے۔ لیان نے وڈیو میں بتایا ہے کہ انہیں اپنے بھائیوں کے ہاتھوں جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد وہ گزشتہ سال نومبر میں ترکی بھاگ گئیں۔
10 منٹ کی وڈیو جسے 30 لاکھ سے زیادہ مرتبہ دیکھا گیا ہے، میں لیان بتاتی ہیں کہ اب انہیں قتل کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں غیرت کے نام پر ہر سال 5 ہزار سے زیادہ خواتین کا قتل ہوتا ہے۔ لیکن اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ بیشتر واقعات منظرِ عام پر ہی نہیں آتے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اردن میں ہی غیرت کے نام پر سالانہ 15 سے 20 قتل ہوتے ہیں اور یہاں بھی کئی واقعات کبھی سامنے نہیں آتے۔
جب سے لیان کی وڈیو وائرل ہوئی ہے، اردن میں سوشل میڈیا پر یہ سوال بڑی شدت سے اٹھ رہا ہے کہ آخر یہ قتلِ عام کب تک جاری رہے گا؟
کووِڈ-19 کی وبا نے دنیا بھر میں صنفی بنیادوں پر تشدد میں اضافہ کیا ہے، جسے اقوامِ متحدہ نے ‘وبا کے دوران ایک اور وبا’ قرار دیا ہے۔ خود اردن میں لاک ڈاؤن کے دوران صنفی بنیاد پر تشدد میں 33 فیصد اضافہ ہوا ہے اور صرف 2020ء میں گھروں میں قتل کے کم از کم 17 واقعات پیش آئے ہیں۔
نام نہاد غیرت کے نام پر قتل عموماً تب ہوتا ہے جب مرد سمجھتے ہیں کہ ان کی رشتہ دار خاتون نے کچھ ایسی حرکت کی ہے جو خاندانی غیرت کے منافی ہے۔ اب یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ کس چیز کو غیرت کے منافی حرکت سمجھیں جیسا کہ کچھ قتل صرف انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا کے استعمال پر بھی ہوئے ہیں۔
گزشتہ سال مئی میں اردن میں ہی ایک شخص نے اپنی 14 سالہ بہن کو فیس بک پیج بنانے پر قتل کر دیا تھا۔ پھر دسمبر میں عمان کی ایک یونیورسٹی میں پڑھنے والی 19 سالہ لڑکی آیا کو اس کے بھائی نے زد و کوب کرنے کے بعد ہاتھ باندھ کر غسل خانے میں بند کر دیا تھا کیونکہ اسے شک تھا کہ لڑکی کے کسی کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اور یہ شک صرف اس بنیاد پر تھا کہ اس کے نمبر پر ایک لڑکے کی کال آئی تھی۔ آیا ابھی تک ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور انہیں شدید اندرونی اور دماغی چوٹیں آئی ہیں۔ البتہ ان دونوں واقعات کے ملزمان اس وقت پولیس کی تحویل میں ہیں۔
گو کہ غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ تر جرائم کا نشانہ 25 سال سے کم عمر خواتین بنتی ہیں، لیکن کچھ واقعات ان کے علاوہ بھی پیش آئے ہیں جیسا کہ جولائی میں 30 کے پیٹے میں موجود ایک خاتون اہلام کو ان کے والد نے سر پر اینٹیں مار مار کر قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے کی وڈیو بھی منظرِ عام پر آئی تھی جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ وہ کس طرح رو رو کر اپنی ماں کو بلا رہی ہے لیکن باپ کو ذرا رحم نہ آیا۔ قتل کے بعد اس نے وہاں بیٹھ کر چائے پی، سگریٹ سلگایا اور کچھ دیر بعد پولیس کو بلا لیا۔
اہلام کی اس وڈیو نے سوشل میڈیا پر ایک مہم ‘عورتوں کی چیخیں’ شروع کی، جس میں ملک میں خواتین کے تحفظ کے لیے نئے قوانین مرتب کرنے کا مطالبہ کیا گیا، خاص طور پر نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے خلاف۔
اردن میں خواتین 80ء کی دہائی سے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف مہم چلا رہی ہیں۔ 90ء کی دہائی میں تو اپنی رشتہ دار خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ ایک سال قید کی سزا ملتی تھی۔ آج یہ کم از کم 7 سال کی سزا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 2017ء میں اردن کے آئین کی دفعہ 98 میں تبدیلی کی گئی تھی، جس میں خواتین کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کی سزا میں نرمی کرنے کی شق ختم کی گئی تھی۔ یہ دراصل دفعہ 340 کا ایک سقم تھا، جسے ختم کیا گیا، جس کے مطابق عورت کو نازیبا حالت میں دیکھنے کے بعد قتل کرنے والے مرد کی سزا کم کی جا سکتی ہے۔ اب یہ قانون تو ختم ہو چکا ہے لیکن واقعات میں کمی نہیں آ رہی۔
اردن ان ممالک میں شامل ہے کہ جہاں غیرت کے نام پر قتل کی شرح سب سے زیادہ ہے، لیکن یہ صرف ایک ملک یا خطے تک محدود نہیں ہے۔ مشرق وسطیٰ، جنوب مشرقی ایشیا اور بحیرۂ روم کے ساحل کے ساتھ واقع چند ممالک میں آج بھی غیرت کے نام پر قتل عام ہے۔ ابھی دو ہفتے پہلے سعودی عرب میں ایک صحرا سے 26 سالہ خاتون قمر کی لاش ملی ہے، جنہیں ان کے بھائیوں نے اسنیپ چیٹ پر اکاؤنٹ بنانے پر قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد قمر کی بہن منال نے سوشل میڈیا کا رخ کیا اور اپنی بہن کے قتل کے پسِ پردہ اسباب سامنے لائیں جس پر پولیس نے الٹا منال کو روکا کہ وہ ایسی پوسٹس نہ کریں کیونکہ ان سے اس واقعے کو بین الاقوامی توجہ مل رہی ہے۔ اس کا عرب سوشل میڈیا پر سخت ردعمل سامنے آیا اور ‘قمر کی بہن منال کو بچائیں’ نامی ہیش ٹیگ وائرل ہوا کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں اب منال کی زندگی خطرے میں ہے۔
بہرحال، اردن نے 2016ء میں ایک فتویٰ بھی جاری کیا تھا جس کے مطابق غیرت کے نام پر قتل شریعت کے خلاف ہے۔ پھر اسی سال حکومت نے ان خواتین کے لیے مخصوص پناہ گاہیں بھی بنائیں، جن کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ اس سے خواتین کو تحفظ کے لیے جیل بھیج دیا جاتا تھا۔
جواب دیں