بھارت میں گھریلو تشدد کے مسئلے کی جڑیں بہت گہری ہیں اور بہت بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (NCRB) کا 2019ء کا ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ 4.05 لاکھ مقدمات کا بڑا حصہ (30.9 فیصد) تعزیراتِ ہند کی دفعہ 498A کے تحت درج درج کیا گیا ہے۔ یہ وہ دفعہ ہے جو شوہر یا سسرالیوں کے ظلم و ستم کے حوالے سے ہے۔
دفعہ 498A ایک فوجداری قانون ہے، جو شادی شدہ خواتین کو اپنے شوہروں اور سسرالیوں کے مظالم سے بچاتا ہے۔ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کا بہت بڑا حصہ گھریلو تشدد کے واقعات پر مبنی ہوتا ہے، لیکن یہ وہ جرم ہے جو منظرِ عام پر نہیں آتا۔ ایسے زیادہ تر واقعات کا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پتہ ہی نہیں چلتا۔
اس کی بہت ساری وجوہات ہیں، جیسا کہ پریشانی، مالی طور پر شوہر پر انحصار کرنا، رپورٹ کرنے کے نتیجے میں کسی جوابی کارروائی یا اُلٹا خود پر الزام لگنے کا خوف۔
یہی وجہ ہے کہ بھارت میں ان سامنے نہ آنے والے واقعات کے پھیلاؤ کو سمجھنا گھریلو تشدد کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔
ایک طرف NCRB رپورٹ ملک کی تمام ریاستوں سے ان جرائم کے اعداد و شمار درج کرتی ہے جو دفعہ 498A کے تحت ہوتے ہیں تو دوسری جانب حال ہی میں شروع کیا گیا نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (NFHS) ہے، جو ایک آزاد، قابلِ بھروسہ اور قومی نمائندگی رکھنے والا ڈیٹا سورس ہے، جو اپنے ذرائع سے ڈیٹا جمع کرتا ہے۔
NFHS کا ڈیٹا بھارت میں گھریلو تشدد کے حوالے سے ایک بھیانک تصویر سامنے لاتا ہے، جس کے مطابق ریاست کرناٹک میں 44 فیصد خواتین کو شوہر کے ہاتھوں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد بہار میں یہ تعداد 40 فیصد، منی پور میں 39.6 فیصد، تلنگانہ میں 36.9 فیصد، آسام میں 32 فیصد اور آندھرا پردیش میں 30 فیصد ہے۔ گھریلو تشدد کے واقعات میں سب سے نیچے لکشادیپ 1.3 فیصد، ناگالینڈ 6.4 فیصد، گوا 8.3 فیصد اور ہماچل پردیش 8.3 فیصد ہیں۔
اگر ہم NFHS کے ڈیٹا کو دفعہ 498A کے تحت درج ہونے والے مقدمات سے ملائیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ 20 میں سے 14 ریاستوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو واقعات رپورٹ نہیں کیے جاتے۔
گھریلو تشدد کے واقعات کے پولیس کے علم میں نہ آنے کی سب سے زیادہ شرح بہار، کرناٹک اور منی پور میں ہے کہ جہاں گھریلو تشدد کا پھیلاؤ تو 40 فیصد یا اس سے زیادہ ہے لیکن رپورٹنگ کی شرح 8 فیصد سے بھی کم ہے۔ آسام، آندھرا پردیش، کیرلا، تلنگانہ، تری پورہ اور مغربی بنگال میں گھریلو تشدد کے کیسز فائل ہونے کی شرح زیادہ ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ مرد اور خواتین دونوں اس امر سے آگاہ ہیں کہ گھریلو تشدد اخلاقی و قانونی طور پر غلط ہے، لیکن اس کے باوجود اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سماجی شعور ہے، جو گھریلو تشدد کو برداشت کر لیتا ہے۔
جس طرح بھارت میں وفاقی و ریاستی حکومتوں نے حفظانِ صحت، خاص طور پر بیت الخلا کے استعمال کے حوالے سے، شعور اجاگر کرنے کے لیے کام کیا ہے، میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ہے اور ملک کی مشہور و معروف شخصیات کو اس مہم کا حصہ بنایا ہے، اسی طرح گھریلو تشدد کے خلاف بھی ایسی ہی مہمات کی ضرورت ہے۔
گھریلو تشدد کے واقعات کا گفتگو کے موضوعات کا اہم حصہ بننا اور سماجی اقدار کو تبدیل کرنا، دونوں مردوں کے رویّے میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ درست ترین اعداد و شمار حاصل کرنا ان واقعات سے نمٹنے کی کوششوں میں ترجیح ہونا چاہیے۔
جواب دیں