ٹوکیو اولمپکس کے سربراہ نے استعفیٰ دے دیا، لیکن صنفی مسائل بدستور موجود

ٹوکیو اولمپک آرگنائزنگ کمیٹی کے صدر یوشیرو موری نے بالآخر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ان کے ایک تبصرے پر جاپان سمیت دنیا بھر میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ "عورتیں کام کم کرتی ہیں اور بولتی زیادہ ہیں۔”

یوشیرو موری جاپان کے وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں اور ان کی جانب سے یہ تبصرہ ایسے وقت میں آیا ٹوکیو اولمپکس کے آغاز میں صرف پانچ مہینے رہ گئے ہیں اور اس وقت بھی ملک میں رائے عامہ ان گیمز کے انعقاد کے خلاف ہے۔ جس کی ایک وجہ تو عالمی وبا ہے اور دوسری ہے سخت معاشی حالات میں کھیلوں کے انعقاد پر بڑھتی ہوئی لاگت۔

انہوں نے ابتدا میں بیان پر معافی تو مانگی تھی لیکن استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ جس کے بعد تجزیہ کاروں اور اسپانسرز کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی اور ایک آن لائن پٹیشن میں ان کے خلاف 1,50,000 افراد کے دستخط جمع ہوئے۔

اپنے بیان میں موری نے کہا کہ "میں آج صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔ میرے نامناسب تبصرے نے بہت ہنگامہ کھڑا کیا ہے۔ میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ مجھے اس بیان پر افسوس ہے لیکن اس کا مقصد ہر گز خواتین کو کمتر سمجھنا یا دکھانا نہیں تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میرے عہدے پر رہنے سے مسئلہ کھڑا ہو رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو وہ سب کچھ ضائع ہو جاتا جس کے لیے ہم نے اب تک اتنی محنت کی ہے۔”

یوشیرو موری کو 2014ء میں آرگنائزنگ کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا، جب ٹوکیو کے اولمپکس میزبانی حاصل کرنے میں ابھی دو مہینے باقی تھے۔

ایگزیکٹو بورڈ نے فوری طور پر تو اعلان نہیں کیا کہ یوشیرو موری کی جگہ کون لے گا، لیکن سی ای او توشیرو موتو کا کہنا ہے کہ اس کا فیصلہ نظرثانی کمیٹی کی جانب سے جلد کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ انتظامی باڈی میں مردوں اور عورتوں کی یکساں نمائندگی ہوگی البتہ انہوں نے ان خبروں کی تصدیق نہیں کی کہ یوشیرو موری کی جگہ کسی خاتون کو صدر بنایا جائے گا۔

البتہ ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ سیکو ہاشیموتو سب سے آگے ہیں۔ وہ موجودہ حکومت میں وزیر برائے اولمپک بھی ہیں اور 1992ء کے سرمائی اولمپکس میں اسپیڈ اسکیٹنگ میں کانسی کا تمغہ بھی جیت چکی ہیں۔ یعنی خاتون، سابق اولمپیئن اور انتظامی کمیٹی کی رکن، یہ تینوں خصوصیات ان کو مضبوط امیدوار بنا رہی ہیں۔ ان کے علاوہ تین خواتین ہیں جو اس عہدے پر آ سکتی ہیں اور تینوں سابق اولمپیئن ہیں۔ کاؤری یاماگوچی نے 1988ء کے سیول اولمپکس میں جوڈو میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔ میکاکو کوتانی نے اسی اولمپکس میں تیراکی میں دو کانسی کے تمغے حاصل کیے تھے جبکہ ناؤکو تاکاہاشی 2000ء کے سڈنی اولمپکس میں میراتھون میں سونے کا تمغہ جیت چکی ہیں۔

صنفی عدم توازن جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی بہت بڑا مسئلہ ہے، جس کی طرف ایک اشارہ تو گزشتہ ہفتے کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے۔ خواتین سیاست کے میدان میں اور دیگر اداروں میں اعلیٰ اور فیصلہ کن عہدوں پر بہت پیچھے ہیں۔ عالمی اقتصادی فورم کی ‘جینڈر ایکوالٹی رینکنگ’ میں جاپان 153 ممالک میں 121 ویں نمبر پر ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے ایک تاریخی موڑ ثابت ہوگا۔ ردعمل سے ظاہر ہو رہا ہے کہ سماجی اقدار اب تبدیل ہو رہی ہیں اور ایک بہت بڑی اکثریت نے یوشیرو موری کے اس تبصرے کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ اس معاملے نے ملک میں صنفی توازن پیدا کرنے اور طاقت کے ایوانوں میں صنفی مساوات کے مطالبات بڑھا دیے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے