آج سائنس میں خواتین کا عالمی دن

آج 11 فروری کو سائنس میں خواتین کا عالمی دن ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 22 دسمبر 2015ء کو ایک قرارداد کے ذریعے یہ دن منانے کا اعلان کیا تھا۔ اس دن کو منانے کا مقصد سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں خواتین کے اہم کردار کو تسلیم کرنا اور انہیں اس شعبے میں بھرپور اور برابر کی رسائی دینا ہے۔

اقوام متحدہ کا ادارہ برائے تعلیم، سائنس و ثقافت ‘یونیسکو’ اور ادارہ برائے خواتین ‘یو این ویمن’ یہ دن غیر سرکاری انجمنوں اور ایسے اداروں کی مدد سے مناتے ہیں جو سائنس میں خواتین اور لڑکیوں کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب دنیا کو ایک وبا کا سامنا ہے، عوامی صحت، ویکسین سازی، علاج اور جدید ٹیکنالوجی میں خواتین سائنس دانوں، صحت کے شعبے سے وابستہ کارکنوں اور دیگر کا کردار صفِ اول کے کارکنوں جیسا ہے۔ اس کے باوجود سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں صنفی عدم مساوات نے خواتین کے قدم روک رکھے ہیں۔

یونیسکو کی ‘سائنس رپورٹ’ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں محققین میں خواتین کی تعداد صرف 33 فیصد ہے، باوجود اس کے کہ بیچلرز اور ماسٹرز کی سطح پر طلبہ میں ان کی شرح بالترتیب 45 اور 55 فیصد ہے، بلکہ پی ایچ ڈی پروگرامز میں حصہ لینے والوں میں 44 فیصد خواتین ہیں۔

صحت و سماجی بہبود کے شعبے میں تقریباً تین چوتھائی افرادی قوت ہونے کے باوجود یہاں عدم مساوات کا یہ عالم ہے کہ خواتین کی تنخواہ مردوں سے اوسطاً 11 فیصد کم ہے۔ کووِڈ-19 نے اس مسئلے کو اور گمبھیر کر دیا ہے، خاص طور پر اپنے کیریئر کے ابتدائی مرحلے میں موجود خواتین کے لیے۔

سائنس کے میدان میں خواتین کے کردار کو تسلیم کرنا، ان کے حوالے سے غلط فہمیوں کو ختم کرنا اور سائنس کے میدان میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا خاتمہ اب بہت زیادہ ضروری ہے۔

سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ انتونیو گوتیریس کہتے ہیں کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں صنفی مساوات انسانیت کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے۔ اس کا عملی مشاہدہ ہم کووِڈ-19 کے خلاف جدوجہد میں ایک مرتبہ پھر کر رہے ہیں۔

صحت کے شعبے میں اکثریت ہونے کی وجہ سے خواتین اس وبا سے متاثر بھی زیادہ ہو رہی ہیں۔ پھر تعلیمی اداروں کی بندش، گھریلو کام کا بوجھ اور دفتری کام گھر سے کرنے کی اضافی پابندی کی وجہ سے انہیں سخت دباؤ کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رواں سال صنفی عدم مساوات میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے رہنما نے کہا کہ STEM (سائنس، ٹیکنالوجی انجینیئرنگ اور میتھس) میں خواتین کی تعداد نہ بڑھائی گئی تو دنیا بدستور ایسی ہی رہے گی جسے مرد ہی بنائیں گے اور مردوں کے لیے ہی تشکیل دیں گے، اور خواتین اور لڑکیوں کی اپنی صلاحیتوں کے حقیقی اظہار کا موقع نہیں ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خواتین کی موجودگی پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) کے لیے بھی ضروری ہے تاکہ تنخواہوں میں فرق کو کم کیا جا سکے اور اگلے دس سالوں میں دنیا بھر میں خواتین کی آمدنی میں 299 ارب ڈالرز کا اضافہ ہو سکے۔

انٹرنیٹ تک صنفی امتیاز کے بغیر یکساں رسائی کے لیے بھی STEM صلاحیتیں ضروری ہیں تاکہ صنفی امتیاز کا خاتمہ ہو اور یقینی بنایا جا سکے کہ تمام خواتین اور لڑکیاں اپنی بھرپور اور حقیقی صلاحیتیں پائیں گی اور سب کے لیے ایک بہتر دنیا تشکیل دینے میں اپنا کردار ادا کریں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے