اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ عہدیدار فومزیلے ملامبو-اینگوکا نے کہا ہے کہ وبا کے بعد دنیا کے مختلف ممالک کو ایک مضبوط دنیا کی تشکیل کے لیے قائدانہ حیثیت میں مزید خواتین کو سامنے لانا چاہیے کیونکہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اہم سیاسی عہدوں پر صنفی مساوات تک پہنچنے میں خواتین کو ایک صدی سے زیادہ لگ جائے گا۔
2005ء میں جنوبی افریقہ کی پہلی خاتون نائب صدر کی حیثیت سے تاریخ رقم کرنے والی ملامبو-اینگوکا کا کہنا ہے کہ صنفی بنیادوں پر ایک متوازن کابینہ بہتر فیصلے کرتی ہے، صرف خواتین کے لیے ہی نہیں بلکہ بحیثیتِ مجموعی پورے معاشرے کے لیے۔
اہم اور اعلیٰ سیاسی عہدوں پر خواتین کی آمد کی رفتار انتہائی سست ہے، لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ کملا ہیرس کا امریکی تاریخ کی پہلی نائب خاتون صدر بننا کئی ملکوں کی توجہ حاصل کرے گا اور مزید خواتین کو بھی اہم ترین سیاسی عہدوں پر پہنچنے کی تحریک دے گا۔ "اگر کوئی بڑا ملک مثال قائم کرتا ہے تو اس سے مقصد کو مدد ملتی ہے۔ اس سے دوسرے ملکوں کو آگے بڑھنا کا حوصلہ ملتا ہے۔ کملا ہیرس خاص طور پر غیر سفید فام نوجوان خواتین کے لیے رول ماڈل ہیں۔ اب ان کے سامنے ایک عملی شخصیت موجود ہیں، جسے وہ جان سکتے ہیں، سمجھ سکتے ہیں اور جس کے نقشِ قدم پر وہ چل سکتے ہیں۔ خود میری 2005ء میں نائب صدر کی حیثیت سے تقرری نے نوجوان نسل کو متاثر کیا تھا۔ لڑکیوں کو یہ کہتے ہوئے دیکھنا بہت خوشی دیتا ہے کہ "میں بھی ایسی ہی بنوں گی۔”
خواتین کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے ‘یو این ویمن’ کے مطابق دنیا میں صرف 22 ممالک ایسے ہیں جہاں کوئی منتخب خاتون حکمران یا سربراہ مملکت ہیں، جبکہ 119 ملکوں میں کبھی بھی کوئی خاتون رہنما کسی اہم عہدے پر نہیں رہیں۔ ملامبو-اینگوکا نے کہا کہ سیاست کے میدان میں صنفی مساوات کے حصول کی جو موجودہ شرح ہے، اس کے مطابق تو یہ منزل 130 سال تک بھی نہیں حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ قومی پارلیمنٹس میں 2063ء تک اور وزارتی سطح پر 2077ء سے پہلے صنفی مساوات حاصل نہیں ہو سکتی۔
2020ء کے اوائل میں صرف 14 ممالک ایسے تھے کہ جن کی کابینہ میں کم از کم نصف تعداد خواتین کی تھی۔ ان میں روانڈا، فن لینڈ، کینیڈا، کولمبیا اور پیرو شامل تھے۔ امریکا بھی ان ممالک میں شامل ہو سکتا ہے کیونکہ جو بائیڈن نے عہد کیا تھا کہ وہ ایسی کابینہ بنائیں گے "جو امریکا جیسی نظر آئے گی۔”
ملامبو-اینگوکا کہا کہ اہم سیاسی عہدوں تک پہنچنے کی خواہشمند خواتین کو کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے حمایت نہ ملنا، جس کی وجہ سے ملکوں میں خواتین کی نمائندگی کے لیے کوٹا مقرر کرنا بہت اہم ہو جاتا ہے۔
انہوں نے حکومتوں پر زور دیا کہ وہ سیاست کے میدان میں خواتین پر تشدد کی کسی بھی صورت کو غیر قانونی قرار دیں اور آجکل بڑھتے ہوئے آن لائن بدتمیزی کو روکنے کے لیے کام کرے، جس میں زیادہ تر جنسی اشارے اور دوسروں کو جسمانی طور پر شرمندہ کرنے جیسی حرکات شامل ہیں، جو خواتین کو کوئی عوامی عہدہ حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔
‘یو این ویمن’ کی 2016ء کی ایک تحقیق میں پایا گیا کہ ہر پانچ میں سے چار خواتین اراکینِ پارلیمنٹ کو اپنے کام کے حوالے سے جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان میں چار میں سے ایک کو جسمانی جبکہ پانچ میں سے ایک کو جنسی تشدد کا سامنا ہوتا ہے۔ ملامبو-اینگوکا نے کہا کہ "دراصل یہ قیادت کے آغاز سے پہلے ہی خواتین کو ڈرانے دھمکانے کا ایک طریقہ ہے۔ اس لیے حکومتوں کو اور عدالتی نظام کو بھی اس پر توجہ دینی چاہیے اور یقینی بنانا چاہیے کہ ایسی حرکات کے مرتکب پکڑے جائیں۔”
ملامبو-اینگوکا نے کہا کہ صنفی طور پر متوازن حکومتیں بہتر فیصلے کرتی ہیں، کیونکہ وہ ان لوگوں کی بہتر نمائندہ ہوتی ہیں کہ جن کی خدمت ان پر فرض ہے اور خواتین مختلف معاملات پر نئے زاویے بھی پیش کرتی ہیں۔ "آپ لوگوں کی ضروریات کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں جبکہ آپ نے کبھی ان کے حالات کا سامنا ہی نہ کیا ہو اور معاملات کو ان کی نگاہ سے دیکھا ہی نہ ہو؟”
انہوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ کی جیسنڈا آرڈرن سے لے کر جرمنی کی انگیلا مرکیل تک خواتین نے کووِڈ-19 سے نمٹنے کے لیے اپنے اقدامات پر دنیا بھر میں ستائش حاصل کی۔ کیونکہ خواتین کا رحجان ایسی صورت میں سیاست کرنے پر نہیں، بلکہ مسئلے کے حل کی جانب زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے وہ کے لیے کام کرتی ہیں۔
ملامبو-نگوکا نے کہا کہ خواتین کووِڈ-19 کے بعد نئی دنیا کی تعمیر میں قائدانہ کردار ادا کریں گی، خاص طور پر اس لیے بھی کہ وبا کی وجہ سے خواتین کی بڑی تعداد غربت کی دلدل میں چلی گئی ہے۔ اگر خواتین اس غربت سے نہیں نکلیں تو کئی خاندان اور گروہ طویل عرصے تک بہت مشکل صورت حال کا سامنا کریں گے اور یہ سب کے لیے مسئلہ ہوگا۔
Pingback: وبا کے خلاف بھرپور ردِ عمل دکھانے پر خواتین عالمی رہنماؤں کی تعریف - دی بلائنڈ سائڈ