پاکستان میں خواتین پر تشدد بہت عام ہے اور گزشتہ سال بھر کے دوران ریپ کے کئی کیسز بھی منظرِ عام پر آئے ہیں جن سے عوامی سطح پر کافی غم و غصہ پیدا ہوا۔ لیکن انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ریکارڈ پر آنے والے کیسز آٹے میں نمک کے برابر ہیں، کیونکہ ملک میں صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد کے زیادہ تر واقعات سامنے ہی نہیں آتے۔ کئی واقعات ایسے ہیں جن کو خواتین ہی منظرِ عام پر نہیں لاتیں اور خود پر ہونے والے ظلم کی شکایت نہیں کرتیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے خوف!
ان کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان میں پولیس اور عدلیہ کے شعبوں میں مردوں کی اجارہ داری رہے گی، خواتین ان کے ساتھ رابطے میں ہچکچاتی رہیں گی۔ تفتیش کے دوران تھانوں تک میں ہراسگی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
اس لیے انسانی حقوق کے ادارے حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ریپ کے مقدمات کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام کا نیا قانون منظور کرے تاکہ جنسی استحصال اور صنفی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بننے بننے والی خواتین کو تحفظ کا احساس مل سکے۔
انہوں نے ایسے معاملات سے نمٹنے والی خواتین پولیس افسران اور خواتین ججوں کی تعداد بھی بڑھانے کا مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں خواتین پولیس کی کُل افرادی قوت کا صرف 1.8 فیصد ہیں۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران اس میں کچھ اضافہ تو ضرور ہوا ہے لیکن صنفی توازن پانا اب بھی ایک دُور پرے کا خواب ہے۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) راولپنڈی سٹی پولیس اسٹیشن محمد احسن یونس کہتے ہیں کہ ہمارے تھانوں میں خواتین افسران زیادہ نہیں ہیں لیکن ہمارے سینیئر افسران تربیت کے سخت مراحل سے گزر کر آتے ہیں۔ ہمیں نوحوان خواتین پولیس اہلکاروں کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے جو میرے خیال میں بہت باصلاحیت ہیں۔
جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق احسن یونس نے کئی منصوبے شروع کیے ہیں جن کی قیادت خواتین اہلکاروں کے ہاتھ میں ہے، جن میں خواتین کو ہراسگی اور گھریلو تشدد کے واقعات رپورٹ کرنے کا حوصلہ دینے کے لیے تھانے میں شکایات کا الگ یونٹ بنانا بھی شامل ہے۔ انہوں نے ایک ایسی ہیلپ لائن بھی تشکیل دی ہے کہ جو صرف خواتین پولیس افسران پر مشتمل ہے۔
اب راولپنڈی اور ملحقہ علاقوں کی خواتین گھریلو تشدد یا ہراسگی کے کسی واقعے کی رپورٹ ٹول فری نمبر 111-276-797 پر کر سکتی ہیں، وہ بھی تھانے آئے بغیر۔ ہیلپ لائن کے ذریعے شکایت درج ہونے کے بعد ایک خاتون پولیس افسر اس معاملے سے نمٹنے کے لیے تعینات کی جاتی ہے۔
29 سالہ آمنہ بیگ اس ہیلپ لائن میں کام کرنے والی اہم اہلکاروں میں سے ایک ہیں، کہتی ہیں کہ خواتین کے لیے ہراسگی کے واقعات کو رپورٹ کرنا مشکل کام ہے۔ "زیادہ تر سماجی داغ لگنے کے خوف کی وجہ سے اس کا سوچتی تک نہیں ہیں۔ پاکستان میں خواتین کا تھانے جانا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ہماری ہیلپ لائن ممکن بناتی ہے کہ خواتین رازداری اور اپنی حفاظت کے یقین کے ساتھ پولیس سے رابطہ کریں۔”
یہ ہیلپ لائں 8 دسمبر کو لانچ کی گئی تھی اور راولپنڈی ویمنز پولیس اسٹیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک کئی خواتین ہیلپ لائن پر کال کر چکی ہیں اور جن کے نتیجے میں پولیس نے باقاعدہ طور پر 25 مقدمات درج کیے ہیں۔
پولیس کے مطابق آنے والی کالز میں سے 52 فیصد عوامی مقامات پر تنگ کرنے کے واقعات کی تھیں اور 12 فیصد جنسی ہراسگی اور تقریباً 36 فیصد گھریلو تشدد کے حوالے سے۔
آمنہ بیگ کہتی ہیں کہ ایک طرف جہاں ہیلپ لائن خواتین کو پولیس کے پاس شکایت درج کروانے کا حوصلہ دے رہی ہے، وہیں پولیس کے پاس باقاعدہ رپورٹ کروانے کی شرح اب بھی کم ہے کیونکہ خواتین پر خاندان کا سماج کا دباؤ ہوتا ہے کہ وہ مجرموں کو معاف کر دیں، خاص طور پر جب اس حرکت کا مرتکب خود خاندان کا کوئی فرد ہو۔
آمنہ بیگ کو امید ہے کہ آئندہ چند سالوں میں مزید خواتین بھی پولیس میں شمولیت اختیار کریں گی۔ "میرا تعلق ایک عام پاکستانی گھرانے سے ہے۔ اگر میرے خاندان کی کسی خاتون کو بھی کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ جس میں پولیس کا رخ کرنا پڑے تو اسے ان کے گھر کا مرد ہی دیکھتا ہے۔ پاکستانی خواتین آسانی سے ہسپتال یا اسکول چلی جاتی ہیں کیونکہ وہاں دوسری خواتین بھی کام کرتی ہیں لیکن پولیس کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ میں بھی پولیس میں اسی لیے جانا چاہتی تھی کہ خواتین پولیس کی خدمات تک بلاخوف رسائی حاصل کریں۔”
آمنہ بیگ ٹیکنالوجی کا بھی بھرپور استعمال کرتی ہیں، ٹوئٹر پر ان کے 80 ہزار سے زیادہ فالوورز ہیں۔ اس طرح وہ پاکستان کی پولیس فورس میں تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہیں۔
ماضی ذرا مختلف تھا، خواتین کے لیے پولیس میں آنا بہت مشکل تھا لیکن ایس ایچ او شاہدہ یاسمین گزشتہ تین دہائیوں سے پولیس افسر ہیں۔ کہتی ہیں کہ "جب میں پولیس میں شامل ہوئی تھی تو ایک خاتون کا پولیس افسر ہونا حیرانگی کی بات تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ اب ایسا نہیں ہے۔ لیکن ہمیں اپنے مرد دفتری ساتھیوں کی جانب سے ہراسگی کا سامنا بھی رہا اور ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن اب مرد پولیس افسران بہت احترام کرتے ہیں اور وہ صنفی لحاظ سے آگاہ بھی ہیں۔”
شاہدہ یاسمین خواتین کو پولیس میں شمولیت پر آمادہ کرنے کے لیے کیریئر کونسلنگ سروس شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
جواب دیں