اگلے مہینے کی 7 تاریخ کو سوئٹزرلینڈ میں ایک ریفرنڈم منعقد ہوگا کہ جس میں برقعے اور نقاب جیسے چہرہ ڈھانپنے والے لباس پر پابندی لگانے، یا نہ لگانے، کا فیصلہ ہوگا۔ ابتدائی پولز ظاہر کرتے ہیں کہ 60 فیصد ووٹرز برقعے پر پابندی کے حق میں ہیں۔ سوئس اضلاع سینٹ گیلن اور ٹیکینو پہلے ہی علاقائی سطح پر ووٹ میں چہرہ ڈھانپنے پر پابندی لگا چکے ہیں لیکن سوئس حکومت نے عوام سے کہا ہے کہ وہ اس پابندی کو مسترد کریں کیونکہ برقعے اور نقاب پر ملک گیر آئینی پابندی سے سیاحت کو نقصان پہنچے گا اور یہ قدم "چند مخصوص خواتین” کے لیے بھی مددگار نہیں ہوگا؟
یہ "چند مخصوص خواتین” کون ہیں؟ برطانیہ سے تعلق رکھنے والی مصنفہ اور سیاسی شخصیت رابینہ خان لکھتی ہیں کہ ان سے مراد مسلمان ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں انہوں نے اس ریفرنڈم کو خواتین کے حقوق اور وقار کی توہین قرار دیا ہے۔
وہ لکھتی ہیں کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ ریفرنڈم 8 مارچ کو ہو رہا ہے، یعنی عالمی یومِ خواتین کے موقع پر، جب دنیا بھر میں صنفی مساوات کی بات کی جائے گی، اسی روز مسلمان خواتین سے اپنا چہرہ ڈھانپنے کی آزادی کا حق چھینا جائے گا، یہ ہر گز صنفی مساوات نہیں ہے۔ اگر کوئی مسلمان اپنے عقیدے کی بنیاد پر اپنا چہرہ ڈھانپنا چاہتی ہے تو اسے اجازت کیوں نہیں دی جاتی؟ دنیا میں مختلف عقائد رکھنے والے مختلف ڈریس کوڈ رکھتے ہیں، لیکن اس بنیاد پر زور صرف مسلمان خواتین پر ڈالا جاتا ہے اور انہی کو دباؤ کا سامنا ہے۔
سوئٹزرلینڈ پہلا ملک نہیں ہے کہ جہاں مسلمان خواتین کو اپنی مرضی کا لباس پہننے سے روکا گیا ہے: فرانس، نیدرلینڈز، ڈنمارک، لٹویا، آسٹریا، بلغاریہ، بیلجیئم، جمہوریہ کانگو، چاڈ، گیبون اور سری لنکا میں ایسے قوانین موجود ہیں جو مذہبی بنیادوں پر خواتین کو چہرہ ڈھانپنے کی اجازت نہیں دیتے۔
رابینہ لکھتی ہیں کہ گو کہ دوسرے ممالک میں قانون ساز ادارے میں ووٹنگ کے ذریعے اس پابندی کا اطلاق کیا گیا لیکن سوئٹزرلینڈ میں پبلک ریفرنڈم ہو رہا ہے۔ یہ سیاست دانوں کے لیے بھی غلط ہے کہ وہ کسی بھی ہٹ دھرمی کے سامنے سر جھکائیں اور خواتین کے لباس کو موضوع بنا کر ان کے استحصال کے قوانین متعارف کروائیں۔ لیکن اس سے بھی معیوب یہ ہے کہ سیاست دان ایک مظلوم اقلیت کے خلاف عوامی جذبات کو مشتعل کر رہے ہیں۔
برقعے پر پابندی کی تجویز کے پس پردہ گروپ – Egerkinger Komitee – ہے، جس دائیں بازو کی سوئس پیپلز پارٹی کے اراکین شامل ہیں جنہوں نے 2009ء میں سوئٹزرلینڈ میں مساجد کے میناروں پر پابندی کی تحریک چلائی تھی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مینار سوئس روایات اور اقدار کے خلاف ہیں۔
واضح رہے کہ سوئٹزرلینڈ میں 5 فیصد آبادی مسلمان ہے لیکن 2018ء کے ایک سروے کے مطابق مسلمانوں کے حوالے سے منفی تاثر کے مقابلے میں اسلام پر بے اعتباری تین گُنا زیادہ ہے۔
رابینہ لکھتی ہیں کہ اگر نقاب پہننے والی خواتین کو منفی روپ میں دیکھا جاتا ہے تو یہ ایک اسٹیریوٹائپ یعنی غلط تاثر ہے، جس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ برقعے اور نقاب پر پابندی لگتی ہے تو دنیا میں سوئٹزرلینڈ کا کیا تاثر جائے گا؟ ایک خوبصورت ملک جس کا انحصار سیاحت پر ہے، اسے تو غیر ملکیوں کو بلانا چاہیے، بھگانا نہیں، خاص طور پر وبا کے ملک کی سیاحت پر سنگین اثرات دیکھیں تو اس کی ضرورت اور بڑھ جاتی ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ایک ایسے موقع پر جب وبا کی وجہ سے پوری دنیا ہی "نقابی” بنی ہوئی ہے، نقاب پہننے والی خواتین کے ساتھ رابطے میں دشواری کا بہانہ نہیں چلنے والا۔
بلاشبہ ایسی صورت حال بھی سامنے آتی ہے کہ جن میں خواتین کے لیے نقاب اتارنا ضروری ہو جاتا ہے جیسا کہ سکیورٹی حوالوں سے، عدالت میں یا ہنگامی طبّی صورت حال میں لیکن قانوناً خواتین کو نقاب سے روکنے کی راہ ہموار کرنا اصل میں ان کے ساتھ امتیاز برتنے اور عقائد کی بنیاد پر انہیں ہراساں کرنے کے مترادف ہے، جو بنیادی طور پر غلط ہے اور یہ مسئلہ صرف سوئٹزرلینڈ اور نقاب پر پابندی لگانے والے ممالک تک محدود نہیں ہے۔
رابینہ کی نئی کتاب "My Hair Is Pink Under This Veil” اگلے مہینے مارچ میں ریلیز ہوگی، جس میں وہ لکھتی ہیں کہ 2015ء میں برطانیہ میں میئر کے انتخابات کے دوران ایک سفید فام مرد نے مجھ سے پوچھا کہ میرے بالوں کا رنگ کیا ہے؟ میں نے جواب دیا "گلابی۔”
انہوں نے لکھا کہ 1970ء کی دہائی میں کینٹ میں گزارے گئے بچپن سے لے کر لندن میں آج حجاب پوش مسلمان سیاست دان کی حیثیت سے گزاری جانے والی زندگی میں بھی، ایک کارکن اور مصنفہ کی حیثیت سے، مجھے اس امتیاز کا سامنا کرنا پڑا ہے اور میں نے ان اسٹیریو ٹائپس کے خاتمے کے لیے کام کیا ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ سیاست دان اور عوام مسلمان خواتین کو فیشن کی ٹپس دینا بند کریں کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کے پاس انتخاب کا موقع ہو اور معاشرے میں برابر کا مقام حاصل ہو۔
اس سال بین الاقوامی یوم خواتین کا موضوع #ChoosetoChallenge ہے۔ مسلمان خواتین پر پابندیاں لگانے والے ممالک کے لیے چیلنج ہے کہ: یہ پابندیاں ایک حقیقی صنفی مساوات کی حامل دنیا کے حصول میں کس طرح مدد دے سکتی ہیں؟ میں چیلنج کرتی ہوں انہیں جو مسلمان خواتین کو دبانے اور معاشرے کی تعمیر میں ان کا حصہ ختم کرنے کے درپے ہیں، اور باقاعدہ عدم مساوات کو بھی کہ جو ہمیں آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔
جواب دیں