ہر سال 6 فروری کو عورتوں کے ختنے (Female Genital Mutilation) یا مختصراً FGM کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب کرونا وائرس کے پھیلاؤ نے دنیا بھر میں کئی مسائل کو جنم دیا ہے، وہیں خواتین پر تشدد میں بھی زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جسے عالمی اداروں نے ‘وبا کے دوران ایک اور وبا’ قرار دیا ہے۔ خواتین پر تشدد کی بدترین قسم یہی FGM ہے۔
ایک اندازے کے مطابق کرونا وائرس کی وبا سے پہلے ہی دنیا میں تقریباً 2 کروڑ خواتین موجود تھیں کہ جو اس بھیانک تجربے سے گزر چکی ہیں اور اب تک جسمانی و ذہنی اذیت بھگت رہی ہیں۔ یہ تعداد کتنی بڑی ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دنیا میں خواتین کی کُل آبادی کا 5 فیصد ہے۔
تمام تر کوششوں کے باوجود چند عرب ملکوں میں FGM اب بھی بڑے پیمانے پر عام ہے۔ یمن میں 15 سے 49 سال کی 19 فیصد خواتین ایسی ہیں جن کے ختنے ہو چکے ہیں جبکہ مصر اور سوڈان میں یہ شرح 87 فیصد، یہاں تک کہ جبوتی میں 94 اور صومالیہ میں 98 فیصد تک ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے UNFPA کا کہنا ہے کہ عالمی صحت کے موجودہ بحران کی بدولت اگلی دہائی کے دوران FGM کے مزید 20 لاکھ کیسز سامنے آ سکتے ہیں۔ کیونکہ اس رسم کے خاتمے کے لیے جو پروگرام شروع کیے گئے ہیں، ان کے نفاذ میں وبا کی وجہ سے تاخیر ہوگی۔
عالمی وبا کی وجہ سے خواتین پر تشدد میں اضافے اور ان پر بنا اجرت اور گھریلو کاموں کی صورت میں پڑنے والے دباؤ پر تو بڑے پیمانے پر تسلیم کیا گیا اور اس پر بات کی گئی، لیکن FGM پر پڑنے والے اثرات پر توجہ ذرا کم ہے۔ لیکن یہ بات ثابت شدہ ہے کہ کووِڈ کی وجہ سے اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مثلاً صومالیہ میں وبا کے دوران اسکول بند ہونے یا تعلیم چھوڑ دینے کی وجہ سے لڑکیوں میں FGM میں اضافہ متوقع ہے۔
اس بھیانک رسم کے خاتمے کے لیے دنیا سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ UNFPA نے 2030ء تک دنیا بھر سے FGM کو ختم کرنے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے اور وبا جیسے غیر متوقع دھچکوں کی وجہ سے اسے حاصل کرنے کے لیے تندہی سے کام کرنا ہوگا۔ نہ صرف سرمایہ لگانا ہوگا بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل جل کر اپنی وابستگی بھی ظاہر کرنا ہوگی۔ ان میں عالمی سے لے کر مقامی سطح تک کے پالیسی ساز، نچلے درجے کی اور خواتین کے حقوق کی انجمنوں سے لے کر بین الاقوامی این جی اوز تک پوری سوِل سوسائٹی، صحت عامہ کے کارکنوں سے لے کر مذہبی رہنما اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لے کر عدلیہ تک ہر شعبہ شامل ہے۔
اس مہم میں مردوں کا کردار بھی اہم ہے جو FGM کی حوصلہ افزائی کرنے والی سماجی اقدار کو بدل سکتے ہیں۔
یہ ایسا وقت ہے جس میں خاموش رہنا یا کوئی قدم نہ اٹھانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لڑکیوں اور عورتوں کو تحفظ دینے کے لیے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مردوں، نوجوانوں اور لڑکوں کو بھی تبدیلی کے اس عمل میں آواز اٹھانا ہوگی اور مقامی اور علاقائی منصوبوں کا ساتھ دینا ہوگا۔
واضح رہے کہ FGM کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ خواتین اور لڑکیوں کی صحت کے لیے خطرہ ہے اور ان کو، ان کے خاندانوں، اردگرد اور معاشروں کو نقصان پہنچاتا ہے۔
جواب دیں