یہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف-6 کا ایک اسپورٹس اسٹیڈیم ہے جہاں نیلوفر شیرازی گنیز بُک کے لیے ایک عالمی ریکارڈ توڑنے کی تیاریاں کرتی ہوئی نظر آ رہی تھیں، ایک ایسا ریکارڈ جس کا انہوں نے تمام عمر خواب دیکھا ہے۔
سیمنٹ کے بلاکس پر سجی ہوئی 1,000 اینٹیں ان کی منتظر تھیں، نیلوفر کچھ گھبرائی ہوئی لگ رہی تھیں کیونکہ یہ ایسا کام تھا جو پہلے کبھی کسی نے دیکھا، نہ سنا۔
گزشتہ سال 150 اینٹیں توڑنے والی نیلوفر نے اب 1,000 کا ہندسہ عبور کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کہتی ہیں کہ "میری والدہ اور خاندان کے دیگر اراکین، میرے کوچ ماسٹر چین، دوستوں اور ایونٹ کے اسپانسر سب نے مجھے سپورٹ کیا ہے اور ان کی موجودگی میرے حوصلے بڑھا رہی ہے۔”
سیاہ رنگ کی شرٹ پہنے، جس پر سبز ہلالی پرچم واضح نظر آ رہا تھا، نیلوفر نے پوزیشن لی اور پھر پلک جھپکتے میں اینٹوں کا پہلا جوڑ توڑ کر اپنی طاقت کا مظاہرہ شروع کیا اور کچھ ہی دیر میں اینٹیں ایک، ایک کر کے بکھرنے لگیں۔ 27 ویں منٹ میں خاندان کے اراکین اور دیگر ناظرین کی تالیوں کی گونج میں انہوں نے بالآخر اپنی آخری ضرب لگائی اور 999 ویں اور 1000 ویں اینٹ ٹوٹ کر بکھر گئی۔
نیلوفر نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایک روز وہ یوں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جائیں گی اور پاکستان کی مشہور شخصیت کہلائیں گی۔ اس کارنامے پر انہیں 50 ہزار روپے کا انعام بھی ملا۔
ایونٹ آرگنائزیشن امتیاز احمد کہتے ہیں کہ نیلوفر شیرازی کے ٹیلنٹ کو سامنے لانا اعزاز کی بات ہے اور انہوں نے پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔ دنیا میں کسی نے ابھی تک ایک ہی بار میں 1,000 اینٹیں نہیں توڑیں۔
انہوں نے کہا کہ "ہم اس ایونٹ کی مکمل وڈیو ریکارڈنگ گنیز بُک ٹیم کو بھیجیں گے تاکہ وہ اپنی اینٹیں توڑنے کی کیٹیگری میں نیلوفر کو عالمی ریکارڈ یافتہ کی حیثیت سے شامل کریں۔”
درحقیقت نیلوفر نے اینٹیں ہی نہیں توڑیں، بلکہ کئی ممنوعات کو بھی چکنا چور کر دیا ہے، جو ہمارے معاشرے میں خواتین کے حوالے سے موجود ہیں۔
خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی نیلوفر نے ان لڑکیوں کے لیے مثال قائم کی ہے، جو اپنے دل کی آواز کو ماننے سے جھجکتی اور مردوں کے معاشرے میں اپنی پسند کے کام کرنے سے گھبراتی ہیں۔
نیلوفر اِس وقت اسلام آباد مین مقیم ہیں۔ کیمسٹری میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور آن لائن ٹیچنگ کرتی ہیں۔ لیکن جو چیز انہیں سب سے ممتاز کرتی ہے، وہ اینٹیں توڑنے کی مہارت سیکھنے کا جذبہ ہے۔ انہوں نے نومبر 2018ء میں اس کی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی تھی اور تقریباً دو گھنٹے اس کام کو دیتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ "بچپن میں میں شرمیلی سی تھی، کوئی ذرا آنکھیں دکھاتا تھا تو رونا شروع ہو جاتی تھی۔ اسکول میں یا کھیل کے میدان میں جو بھی ڈراتا دھمکاتا، پریشان ہو جاتی اور گھنٹوں روتی رہتی۔ اس خوف کو ختم کرنے کے لیے اس کام میں دلچسپی لی۔ میرے خاندان یا دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں نے کبھی اس کام کے بارے میں سنا تک نہیں تھا۔ اگر میں اصرار نہ کرتی تو کوئی مجھے یہ کام کرنے بھی نہ دیتا۔”
نیلوفر نے کہا کہ "میں ایک ضرب میں آٹھ اینٹیں توڑنے کا عالمی ریکارڈ بنانا چاہتی ہوں۔ اس وقت میں پانچ اینٹوں پر مشق کر رہی ہوں۔”
نیلوفر کی طرح اُن کی دو بہنیں اور دو بھائی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں۔ والد سینیئر سرکاری ملازم ہیں اور ان کوششوں میں اپنی اولاد کا ساتھ دیتے ہیں۔
پاکستانی خواتین کے بارے میں نیلوفر کا کہنا ہے کہ "انہوں نے دنیا میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے، ضرورت ہے تو صرف انہیں سپورٹ کرنے اور ان کے ٹیلنٹ کو تسلیم کرنے کی۔”
نیلوفر اتوار کا دن اپنے باورچی خانے میں والدہ کی مدد کر کے گزارتی ہیں۔ وہ ایک رضاکار بھی ہیں اور سماجی خدمات اور کمیونٹی ڈیولپمنٹ میں حصہ لیتی رہتی ہیں۔
جواب دیں