باجوڑ، جرگے نے خواتین کے ایف ایم ریڈیو پر کال کرنے اور علاقائی سہولت مرکز جانے پر پابندی لگا دی

ضلع باجوڑ کی تحصیل وڑماموند میں مقامی عمائدین نے خواتین کے ایف ایم ریڈیو پر ٹیلی فون کالز کرنے اور ان کے علاقائی سہولت مرکز جانے پر پابندی لگا دی ہے۔ ان پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والے خاندان پر 10 ہزار روپے کا جرمانہ لگایا جائے گا۔

یہ گرینڈ جرگہ علاقہ سیوئی ڈم جوہڑ میں ہوا کہ جس میں باروزئی، اوروزئی اور برمکازئی قبائل کے عمائدین نے شرکت کی۔

سابق قبائلی علاقہ جات میں بچوں کی بہبود کے لیے خواتین کو 2,500 روپے کا ماہانہ الاؤنس دیا جاتا ہے، جسے حاصل کرنے کے لیے خواتین شہری سہولت مرکز (CFC) مراکز پر آتی ہے جنہیں مقامی سطح پر ‘صدائے امن پروگرام’ کہا جاتا ہے۔ یہ مراکز قومی شناختی کارڈ، پیدائشی سرٹیفکیٹ اور حاملہ خواتین اور ماؤں کی رجسٹریشن کی سہولت بھی دیتے ہیں، تاکہ ان کو وظائف کے حصول میں کسی دشواری کا سامنا نہ ہو۔ رجسٹرڈ حاملہ خواتین کو بچے کی پیدائش سے لے کر اس کے 5 سال کی عمر کو پہنچنے تک وظیفہ دیا جاتا ہے۔ لیکن قبائلی عمائدین کا اعتراض ہے کہ یہ وظیفہ خواتین کو مرکز پر بُلا کر دینے کے بجائے، ان کے خاندان کے مرد اراکین کو ہی دے دیا جائے کیونکہ مرکز پر آنے سے خواتین کے پردے کا مسئلہ ہوتا ہے اور ان کا یوں گھروں سے نکلنا بھی قبائلی روایات کے خلاف ہے۔ جرگے نے اپنے فیصلے میں خواتین پر پابندی لگائی ہے کہ وہ اب خلوزئی میں واقع مرکز پر نہیں جا سکتیں اور جس مرد نے اپنے گھر کی خاتون کو مرکز پر جانے کی اجازت دی، اس پر 10 ہزار روپے کا جرمانہ لگایا جائے گا۔

اس کے علاوہ عمائدین نے علاقے کے منشیات فروشوں کو بھی دو ہفتے کی ڈیڈلائن دی ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنی سرگرمیاں ختم کریں، ورنہ ان کے خلاف سختی سے نمٹا جائے گا۔ عمائدین نے اگلے جمعے کو ایک اور گرینڈ جرگے کا اعلان کیا، جس میں اہم فیصلے کیے جائیں گے۔

اب معاون خصوصی برائے اطلاعات خیبر پختونخوا کامران بنگش کا کہنا ہے کہ یہ غیر قانونی اور غیر آئینی جرگہ ہے۔ صوبائی حکومت نے ڈسٹرکٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو جرگہ اراکین سے مذاکرات کرنے کے احکامات دیے ہیں کہ وہ یہ فیصلہ واپس لیں، ورنہ قانون کے مطابق ایکشن لیا جائے گا۔

کامران بنگش نے کہا کہ صوبائی حکومت قبائلی اور جرگے کی روایات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس حوالے سے تنازعات کے حل کا متبادل اور بہتر قانون لائے گی۔ لیکن اس جرگے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور 25 ویں ترمیم کے بعد اس قسم کی فیصلوں کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر قبائلی جرگے کے ساتھ مذاکرات میں کوئی فیصلہ نہ ہو سکا تو قانون کے مطابق ایکشن لیا جائے گا۔ حکومت کا یقین ہے کہ تمام شہریوں کو صنفی تعصب کے بغیر جمہوری حقوق حاصل ہوں۔

یاد رہے کہ دسمبر میں مقامی افراد نے تحصیل لنڈی کوتل میں واقع صدائے امن پروگرام کے ایک مرکز کی منتقلی کے لیے مظاہرہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس پروگرام کے دفتر کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ یہاں پردے کا مسئلہ ہے۔ مظاہرین نے کہا کہ وہ صدائے امن پروگرام کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ وہ ادائیگی کے طریقے کے خلاف ہیں۔ خواتین کو مرکز پر طلب کرنے کے بجائے ان کے گھر کے مرد اراکین کو ہی ادائیگی ہونی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے