انڈونیشیا میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے حکومت کے اِس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جس کے تحت اسکولوں پر پابندی لگا دی گئی ہے کہ وہ اپنے ڈریس کوڈ میں مذہبی لباس کو لازم نہیں کر سکتے۔
یہ فیصلہ غیر مسلم طالبات کو لازمی حجاب پہننے کا ایک واقعہ سامنے آنے کے بعد ملک گیر ردعمل کے بعد کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ‘ہیومن رائٹس واچ’ کے ایندریاس ہارسونو کہتے ہیں کہ ملک کے 20 سے زیادہ صوبوں میں اسکول مذہبی لباس کو اپنے ڈریس کوڈ کا حصہ بنا سکتے تھے، اس لیے یہ ایک مثبت قدم ہے۔
ملک میں کئی سرکاری اسکول اپنی طالبات اور خواتین اساتذہ کے لیے حجاب پہننا لازمی قرار دیتے ہیں۔ گو کہ انڈونیشیا سرکاری طور پر 6 مذاہب کو تسلیم کرتا ہے البتہ ملک کی تقریباً 90 فیصد آبادی مسلمان ہے۔
حکومت نے اسکولوں میں مذہبی لباس کے حوالے سے حکم نامے پر اُس وقت دستخط کیے ہیں، جب چند ہفتے پہلے ہی صوبہ مغربی سماٹرا سے ایک خبر سامنے آئی تھی کہ وہاں غیر مسلم طالبات کو بھی حجاب پہننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان لڑکیوں کے والدین کے احتجاج کے بعد سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی تھی۔
انڈونیشیا کی وزارتِ مذہبی امور کا کہنا ہے کہ مغربی سماٹرا کا یہ واقعہ محض ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ مذہب کے اظہار کے نام پر دوسری کی آزادیاں سلب کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔
وزیر اعظم ندیم مکارم کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا اطلاق خود مختار صوبہ آچے پر نہیں ہوتا، جہاں اسلامی قوانین نافذ ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ملکی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ لوگوں کے عقائد کا احترام کرتا ہے اور اس کا اپنی مرضی سے اظہار کرنے کی آزادی دیتا ہے۔
جواب دیں