متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں انتہائی تعلیم یافتہ، اپنے شعبوں کے ماہر اور دولت مند غیر ملکیوں اور اُن کے اہلِ خانہ کو شہریت کے مواقع دینے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ قانون اب بھی کئی مایوس کن پہلو رکھتا ہے۔
شہریت پانے کے نئے طریقے دینا ایسے ملک کے لیے ایک اچھی سرمایہ کاری ہے کہ جس کی کُل آبادی کا تقریباً 90 فیصد غیر ملکی شہریوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے بیشتر امارات کی کم آمدنی حاصل کرنے والی افرادی قوت کا حصہ ہیں۔ لیکن حکومت کا نیا شہریت قانون صرف غیر ملکی اشرافیہ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہے۔ یہ اماراتی حکام کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ایسے غیر ملکی افراد کو شہریت کے لیے نامزد کریں جو دانشورانہ، کاروباری یا مالی حیثیت کے حوالے سے معیارات پر پورا اترتے ہوں۔
اب لوگ سوشل میڈیا پر اس نئے منصوبے کے دہرے معیارات کو واضح کر رہے ہیں اور ان کا خاص طور پر مطالبہ ہے ان اماراتی ماؤں کی اولاد کو شہریت دینے کا کہ جن کی شادیاں کسی غیر ملکی سے ہوئی ہیں۔ جی ہاں! امارات میں آج بھی خواتین کو اس امتیازي سلوک کا سامنا ہے کہ اگر ان کی شادی کسی غیر اماراتی سے ہو جائے تو ان کی اولاد پیدائشی طور پر امارات کا شہری نہیں سمجھا جاتا۔ جبکہ اماراتی مردوں کو اس صورت حال کا سامنا نہیں ہے، ان کی اولاد خودکار طور پر شہریت کی حقدار قرار پاتی ہے۔
گو کہ اماراتی مائیں اپنے بچوں کی شہریت کے لیے درخواست دے سکتی ہیں لیکن ہیومن رائٹس واچ کے مطابق شرط یہ ہے کہ ان کے بچے چھ سال تک امارات میں مقیم ہوں۔ لیکن ماؤں کا کہنا ہے کہ اس کی درخواست دینے کا عمل پیچیدہ ہے اور اس میں سالوں بھی لگ جاتے ہیں۔ ویسے 18 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد بچہ خود بھی درخواست دے سکتا ہے لیکن تب بھی اسے سالوں انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بے وطن (stateless) لوگوں کے لیے بھی آواز اٹھائی گئی ہے جو امارات کی شہریت کے بغیر صحت، روزگار اور جامعات میں وظائف جیسی سہولتیں حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اولادوں کے لیے شہریت حاصل کرنے کا کوئی طریقہ سرے سے موجود ہی نہیں، چاہے ان کے والدین کتنے ہی عرصے سے امارات میں کیوں نہ مقیم ہوں۔ کئی بے وطن خود کو امارات کی قبائلی برادریوں یا 1971ء میں ملک کے قیام سے پہلے آنے والے تارکینِ وطن کی اولادیں قرار دیتے ہیں کہ جو اپنی شہریت رجسٹر نہیں کروا پائے تھے۔
اب جبکہ غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے اماراتی شہریت کی پیشکش کی جا رہی ہے، لیکن ایسے موقع پر ان طبقات کی شہریت کے حوالے سے واضح امتیاز کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے۔ وقت آ گیا ہے کہ امارات کے شہریوں کو برابر کی بنیاد پر تسلیم کیا جائے۔
جواب دیں