ٹوکیو اولمپک انتظامی کمیٹی کے سربراہ یوشیرو موری نے اس دباؤ کے باوجود استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا ہے، جو رواں ہفتے خواتین کے حوالے سے ایک ہتک آمیز بیان کے بعد ان پر ڈالا گیا ہے۔
موری ماضی میں جاپان کے وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں اور ان کے بیان نے ٹوکیو اولمپکس کو درپیش کئی مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ اولمپکس گزشتہ سال منعقد ہونا تھے لیکن وبا نے انہیں ملتوی کر دیا اور اب ان کا آغاز رواں سال 23 جولائی کو ہونا ہے لیکن اب تک یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
جاپانی اولمپک کمیٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ایک آن لائن اجلاس میں موری کو یہ کہتے سنا گیا تھا کہ عورتیں اجلاسوں میں باتیں زیادہ کرتی ہیں۔ اس تبصرے نے جاپانی میں کافی ہنگامہ کھڑا کیا، جہاں ویسے ہی سیاست اور ایسے بورڈز میں خواتین کی نمائندگی کم ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ "اگر خواتین ڈائریکٹرز کی تعداد زیادہ ہوتی ہے تو پھر اجلاسوں کا دورانیہ بھی بڑھانا پڑے گا، یہاں تک کہ اس میں رائے زنی کو محدود کیا جائے۔”
اب موری کا کہنا ہے کہ میں استعفے پر غور نہیں کر رہا۔ میں نے سخت محنت کی ہے اور سات سال تک مخلصانہ طور پر کام کیا ہے۔ میں عہدہ نہیں چھوڑوں گا۔ البتہ انہوں نے کہا کہ جاپان اولمپک کمیٹی کے اجلاس میں دیا گیا بیان نامناسب تھا اور اولمپکس اور پیرالمپکس کی روح کے خلاف تھا۔ مجھے اس پر بہت افسوس ہے۔ میں اس بیان سے دستبردار ہوتا ہوں اور جن کی دل آزاری ہوئی ہے ان سے معافی چاہتا ہوں۔
ٹوکیو اولمپکس پہلے ہی کئی مسائل سے دوچار ہیں۔ تقریباً 80 فیصد جاپانی شہریوں کا کہنا ہے کہ گیمز کو اس سال بھی ملتوی یا منسوخ ہونا ہونا چاہیے۔ ان کے انعقاد کی بڑھتی ہوئی لاگت پر بھی عوام شکوہ کناں ہیں جو 25 ارب ڈالرز سے زیادہ ہوگی۔
Pingback: ٹوکیو اولمپکس کے سربراہ نے استعفیٰ دے دیا، لیکن صنفی مسائل بدستور موجود - دی بلائنڈ سائڈ