صرف 12 سال کی عمر میں شادی اور 16 سال میں شوہر کی جانب سے ٹھکرائے جانے کے بعد عنود حسین شیریان نے چہرے پر تیزاب پھینکنے کا عذاب سہا، ان کی داستان غربت سے متاثرہ معاشروں میں ظلم کی بھیانک تصویر پیش کرتی ہے۔
اب عنود 19 سال کی ہیں اور اپنے ظالم شوہر کے ہاتھوں سخت آزمائش سے دوچار ہونے کے بعد وہ ایسے ملک میں ان کے خلاف گواہی دینے کو تیار ہیں کہ جہاں گھریلو تشدد اکثر و بیشتر نظروں میں ہی نہیں آتا۔ وہ بتاتی ہیں کہ "اس نے مجھے بالوں سے پکڑا اور قہقہے لگاتے ہوئے میرے چہرے پر تیزاب انڈیل دیا۔”
گزشتہ اکتوبر میں ہونے والے اس حملے سے عنود کا چہرہ بری طرح جل گیا اور ان کے جسم پر بھی گہرے زخم آئے۔
اپنی شادی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے عنود کہتی ہیں کہ "وہ بہت عذاب کے دن تھے، مجھے جکڑ کر رکھا جاتا اور مارا پیٹا بھی جاتا۔”
عنود کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔ والدہ نے دوسری شادی کر لی اور پھر انہوں نے جلد بازی میں اپنی بیٹی کے لیے بھی شوہر ڈھونڈ لیا۔ "وہ اصل میں مجھے محفوظ کرنا چاہتی تھیں۔” انہوں نے کہا۔
لیکن چار سال تک غلاموں والی زندگی گزارنے کے بعد بالآخر عنود کے شوہر نے انہیں گھر سے نکال دیا۔ بہن نے سہارا دیا اور نرس کی حیثیت سے ان کی تربیت بھی شروع ہو گئی۔ لیکن اب سابق شوہر نے ان سے دوبارہ رجوع کرنے کی کوشش کی اور عنود کے انکار کے بعد اس نے بھیانک بدلہ لیا۔
انہیں زخمی حالت میں اسی کلینک میں داخل کیا گیا جہاں وہ ملازمہ تھیں۔ اب وہ پلاسٹک سرجری کا انتظار کر رہی ہیں تاکہ اس نقصان کا ازالہ ہو سکے جو تیزاب پھینکنے سے ان کے چہرے اور جسم کو پہنچا ہے۔
ان کے ڈاکٹر متوکل شاہری نے کہا کہ یہ آپریشنز بہت پیچیدہ اور مہنگے ہیں اور عنود کو جو ابتدائی طبی امداد دی گئی ہے، ان کے پاس تو اس کے بل کے پیسے بھی نہیں تھے۔ اس پوری داستان کے جو نفسیاتی اثرات ان کے ذہن پر مرتب ہوئے ہوں گے ان کی تلافی شاید کبھی ممکن نہ ہو۔
جب عنود نے اپنے سابق شوہر کے خلاف پرچہ کٹوایا تو وہ غائب ہو گیا اور اب بھی مفرور ہے۔
ڈاکٹر کو امید ہے کہ کوئی نہ کوئی عنود کی مالی مدد ضرور کرے گا، کوئی انسان دوست ادارہ، کوئی سرکاری ادارہ یا پھر نچلی سطح پر کام کرنے والی غیر سرکاری انجمن۔ وہ کہتی ہیں کہ "میں چاہتی ہوں کہ پولیس اور عدالت اس جرم پر اسے سزا دے، لیکن ساتھ ہی مجھے میری جوانی، تعلیم اور اپنا کام بھی واپس چاہیے۔ مجھے اپنی زندگی واپس چاہیے۔”
یمن میں کم عمری کی شادیاں عام ہیں، اور چھ سال کی جنگ نے جہاں ملک کو قحط کے دہانے پر پہنچا دیا ہے وہیں یمنی ویمنز یونین کی تاثیر ولید کہتی ہیں کہ اس صورت حال سے خواتین پر تشدد بھی بہت عام اور شدید ہو گیا ہے۔ لوگ مجبور ہیں کہ اپنے خراب مالی حالات کی وجہ سے بچوں خاص طور پر لڑکیوں سے چھٹکارا پائیں اور شادی اس کا ایک ذریعہ ہے۔
اب خواتین کے لیے کام کرنے والے کئی ادارے جنگ کی وجہ سے بند ہیں اور جو بمشکل کام کر رہے ہیں ان کے پاس خواتین کی قانونی، طبّی اور نفسیاتی ضروریات پوری کرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔
یمن میں خواتین کی حالتِ زار سمجھنے کے لیے اعداد و شمار ہی کافی ہیں۔ 2013ء میں کیے گئے اقوام متحدہ کے ایک سروے کے مطابق 24 سے 32 سال کی ایک تہائی یمنی خواتین کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہو جاتی ہے اور 9 فیصد تو 15 سال کی عمر سے بھی پہلے بیاہ دی جاتی ہیں۔
یونیسیف کا اندازہ ہے کہ صرف 2020ء میں یمن میں تقریباً 40 لاکھ بچوں کی شادیاں ہوئیں، جن میں سے 14 لاکھ 15 سال سے کم عمر تھے۔
2020ء کی رپورٹ میں یو این پاپولیشن فنڈ (UNFPA) نے اندازہ لگایا کہ یمن میں 26 لاکھ خواتین اور لڑکیاں صنفی بنیاد پر تشدد کے خطرے سے دوچار ہیں۔
کووِڈ-19 کے اس دور میں لاک ڈاؤنز لگنے سے یہ دباؤ مزید بڑھ گیا ہے، اور گھریلو تشدد کے واقعات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
ایران نواز حوثی باغیوں اور سعودی عرب کے حمایت یافتہ فوجی اتحاد کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی لاکھوں لوگوں کو موت سے ہمکنار اور گھروں سے بے گھر کر چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اس تنازع نے جزیرہ نما عرب کے اس غریب ترین ملک کو دنیا کے بدترین انسانی بحران سے دوچار کیا ہے اور خدشہ ہے کہ 2021ء میں 1.6 کروڑ افراد بھوک سے دوچار ہوں۔
ایسے انسانی بحرانوں کا ایک پہلو جس پر شاید ہی کسی کی نظر جاتی ہے، وہ خواتین پر تشدد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2015ء سے اب تک یمن میں خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کے واقعات میں 63 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
Pingback: فیصل آباد، نامعلوم شخص نے تین بہن بھائیوں پر تیزاب پھینک دیا - دی بلائنڈ سائڈ