پاکستان میں ریپ کے خلاف نیا قانون کتنا مؤثر ثابت ہوگا؟

پاکستان میں 2018ء میں ایک بچی کے ریپ اور قتل اور گزشتہ سال ستمبر میں لاہور کے قریب موٹر وے پر ایک خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کے واقعات نے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے ہوئے کہ جن کے بعد حکومت نے ریپ کے خلاف قوانین کو مزید سخت کر دیا۔

قانونی لحاظ سے اس اہم پیشرفت پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ ایک طرف خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں اور کارکنوں نے اس کا خیر مقدم کیا جبکہ ایک حلقہ ایسا بھی تھا کہ جس نے اس بنیاد پر نئے قانون پر تنقید کی کہ اس میں سزائیں بہت سخت دی جا رہی ہیں۔

اس ابہام سے سوالات پیدا ہو رہے ہیں کہ نئے قوانین کے پاکستان میں خواتین کے لیے کیا مضمرات ہوں گے؟

جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان بھی مردوں کا ہی معاشرہ ہے، جہاں لڑکیوں کے ساتھ زندگی بھر، بلکہ اس کی پیدائش سے پہلے بھی، صنفی بنیاد پر امتیاز برتا جاتا ہے۔ سخت گیر معاشرتی اقدار نے ان امتیازات کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

پاکستان میں خواتین اور لڑکیوں پر جنسی حملوں، انہیں ہراساں کرنے، ریپ، غیرت کے نام پر قتل، تیزاب سے حملے، گھریلو تشدد اور جبری شادی کے واقعات ملتے ہیں۔ ‘وائٹ ربن پاکستان’ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2004ء سے 2016ء کے دوران ملک میں تقریباً 47,034 خواتین کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا، غیرت کے نام پر 15,000 سے زیادہ جرائم رجسٹرڈ ہوئے، 1,800 سے زیادہ گھریلو تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے اور تقریباً 5,500 خواتین کو اغواء کیا گیا۔ یہ تمام مسائل اب بھی ملک میں موجود ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کو دنیا میں خواتین کے لیے چھٹا خطرناک ترین ملک سمجھا جاتا ہے جبکہ صنفی مساوات کے لحاظ سے یہ دوسرا بدترین ملک ہے، کیونکہ عالمی اقتصادی فورم کے ‘گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس’ میں 153 ممالک میں پاکستان کا نمبر 151 واں ہے۔

لیکن ان تمام مسائل سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جنسی جرائم کے مرتکب افراد کو سزا دینا، جس لحاظ سے جنسی جرائم ہو رہے ہیں، ان کے مقابلے میں مجرموں کو سزا دینے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ درحقیقت تمام رپورٹ کیے گئے کیسز میں صرف 2.5 فیصد مجرموں کو ہی سزا دی جاتی ہے۔ یوں خواتین انصاف کی خاطر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے ڈرتی ہیں، پھر انہیں رسوائی کا خوف ہوتا ہے، پولیس بلکہ اس قدامت پسند معاشرے میں تو اپنے ہی جاننے والوں اور رشتہ داروں کے ہاتھوں سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مجرموں کو سزا دینے کی شرح میں کمی کی وجہ سے خواتین کے خلاف جرائم کو تحریک ملتی ہے۔

پاکستان میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے ہی حکومت نے اینٹی ریپ آرڈیننس پر دستخط کیے ہیں، جو وسیع البنیاد قانون ہے جو پالیسی سازی میں خواتین کی موجودگی کو یقینی بناتا ہے، ایسے جرائم کا نشانہ بننے والی خواتین اور واقعے کے گواہوں کو تحفظ دینے اور جنسی جرائم کرنے والوں کا قومی ڈیٹا بیس تشکیل دینے کی بات کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ قانون خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم کے مقدمات کی جلد از جلد سماعت مکمل کرنے کی بھی ہدایت کرتا ہے، جس کے مطابق تمام تر کارروائی چار ماہ میں مکمل ہونی چاہیے۔

اس قانون سے پہلے پاکستان میں جنسی حملے کے مقدمات سالہا سال تک چلتے رہتے تھے، جس کی وجہ ناقص تفتیشی کارروائی اور ناقص قوانین تھے، اس لیے یہ نئے اقدامات ایک نمایاں تبدیلی سمجھنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ چار مہینے کا وقت طے کر دینے سے لگتا ہے کہ جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کو جلد ہی انصاف ملے گا۔

پھر ریپ کے کیسز میں مجرم کے بری ہونے کی ایک وجہ اس کے خلاف موزوں طبی شواہد موجود نہ ہونا ہوتا ہے، کیونکہ نشانہ بننے والی خاتون کے ڈی این اے کا نمونہ 72 گھنٹوں کے اندر نہیں لیا جا سکا تھا، جو ضروری تھا۔ اب نیا قانون ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین کی طبّی جانچ واقعہ رپورٹ ہونے کے چھ گھنٹوں کے اندر مکمل کرنے اور ٹو-فنگر ٹیسٹ کی ممانعت کرتا ہے۔ یہ دونوں شرائط نہ صرف طبی شواہد کو محفوظ کرتی ہیں بلکہ خواتین کے حقوق، ان کے وقار اور احترام کو بھی برقرار رکھتی ہیں۔

سزائیں دیکھیں تو گینگ ریپ پر سزائے موت یا عمر قید کی سزا ہے، جبکہ جنسی جرائم کرنے والوں کے لیے اب تک سزا 25 سال تک کی قید یا سزائے موت تھی۔ لیکن یہ اقدامات بھی خواتین کے خلاف جرائم کو روکنے کے لیے کافی ثابت نہیں ہوئے تھے۔ لیکن نئے قوانین میں سزائیں مزید سخت کی گئی ہیں جیسا کہ پھانسی، زیادہ قید اور کیمیائی طور پر نامرد کرنے کی سزا۔

اس عمل میں جنسی جرم کرنے والے کے جسم میں انجکشن کے ذریعے ایسی ادویات داخل کی جاتی ہیں جس کی اس کی شہوت میں کمی آ جاتی ہے۔ اس متنازع سزا کا مقصد دراصل مجرم کی جنسی تحریک کو گھٹانا ہے تاکہ وہ جنسی جرم پر آمادہ نہ ہو۔ گو کہ اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ ریپ اور جنسی تشدد کے پیچھے محض شہوت ہی بنیادی عنصر نہیں ہوتی۔ یہ تشدد کی اقسام میں شامل ہے کہ جس کا مقصد دوسرے شخص پر غلبہ حاصل کرنا اور اس پر اپنی طاقت ظاہر کرنا بھی ہو سکتا ہے۔

اس لیے پاکستان کے اینٹی ریپ قوانین کو کچھ لحاظ سے درست سمت میں قدم قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن وہیں جنسی مجرموں کے خلاف انتہائی سخت سزاؤں پر زور دینے سے زیادہ اہمیت دراصل صنفی بنیاد پر تشدد کو روکنے کے لیے قانون سازی اور دیگر اقدامات کی ہے۔

دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے ان نئے قوانین کے اثرات کہاں تک محدود ہوتے ہیں۔

 

One Ping

  1. Pingback: سینیٹ کی کمیٹی نے اینٹی ریپ بل 2021ء کی منظوری دے دی - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے