اپنی نوعیت کے اوّلین بین الاقوامی سروے میں پایا گیا ہے کہ دنیا میں لوگوں کی نمایاں تعداد صنفی مساوات کی حامی ہے اور ایک بڑی اکثریت چاہتی ہے کہ ان کے ملکوں کی حکومتیں اور کاروباری ادارے صنفی تقسیم کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔
ویمن ڈلیور اینڈ فوکس 2030ء کی نئی رپورٹ میں پیش کردہ ‘گلوبل پبلک پرسیپشن سروے’ میں چھ بر اعظموں کے 17 ممالک شامل تھے: آسٹریلیا، ارجنٹینا، کینیڈا، کولمبیا، فرانس، جرمنی، برطانیہ، بھارت، جاپان، کینیا، میکسیکو، نیوزی لینڈ، چین، جنوبی افریقہ، سوئٹزرلینڈ، تونس اور امریکا۔ یہ ممالک دنیا کی آدھی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔
سروے میں جواب دینے والوں کی اکثریت – 80 فیصد – کا کہنا ہے کہ وہ ذاتی حیثیت میں صنفی مساوات کو بہت اہم سمجھتے ہیں اور 65 فیصد نے کہا کہ ان کے ملکوں کو صنفی مساوات کے فروغ کے لیے مزید کام کرنا چاہیے۔
سروے کے یہ نتائج جنریشن ایکوالٹی فورم کے دو مہینوں بعد سامنے آئے ہیں جو صنفی مساوات کے لیے ایک عالمی اجتماع تھا، جسے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین ‘یو این ویمن’ نے منعقد کیا تھا اور اس کی مشترکہ میزبانی میکسیکو اور فرانس نے کی تھی۔ اس میں عالمی رہنماؤں، نجی شعبے اور سوِل سوسائٹی نے صنفی مساوات کے حوالے سے جارحانہ اور مخصوص اقدامات کے لیے دستیاب اہم مواقع پر بات کی۔ فورم نے 2021ء سے 2026ء کے دوران خواتین کے حقوق اور دنیا بھر میں دستیاب مواقع کو بہتر بنانے کے لیے ایک سیاسی عمل کے آغاز اور سرمایہ فراہم کرنے کے وعدے کیے۔
اقوام متحدہ کی انڈر سیکریٹری جنرل اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر یو این ویمن فومزیلے ایملامبو اینگوکا نے کہا کہ "2021ء صنفی مساوات کے لیے عالمی پیشرفت کو تیز کرنے کے لیے ایک سنگِ میل سال ثابت ہونے کا عہد رکھتا ہے۔ جینڈر ایکوالٹی فورم حکومتوں، اداروں، سول سوسائٹی اور دنیا بھر کے ہر عمر اور ہر پس منظر رکھنے والے افراد سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ صنفی مساوات کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے جارحانہ اقدامات اٹھائیں۔ اس اہم موقع پر یہ دیکھ کر حوصلہ مل رہا ہے کہ نہ صرف عالمی رائے عامہ ہمارے ساتھ ہے، بلکہ وہ ہمیں مزید آگے بڑھنے کی تحریک دے رہی ہے۔ دنیا تصدیق کر رہی ہے کہ اب صنفی مساوات میں مزید وقت نہیں لگنا چاہیے۔”
بیجنگ میں خواتین کی یادگار عالمی کانفرنس کو 25 سال گزر چکے ہیں لیکن کوئی ملک صنفی مساوات کے حوالے سے اپنے وعدے پورے نہیں کر سکا۔ دنیا کی نصف سے زیادہ خواتین اور لڑکیاں – تقریباً 2.1 ارب کی آبادی – ان ممالک میں رہتی ہے کہ جو 2030ء کے لیے اپنے صنفی مساوات کے اہداف حاصل کرتے نہیں دکھائی دیتے۔
ویمن ڈلیور کی سینیئر مینیجر پالیسی اینڈ ایڈووکیسی دیویا میتھیو نے کہا کہ ہم نے پچھلے 25 سالوں میں کافی پیشرفت کی ہے، لیکن ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ یہ سروے ظاہر کرتا ہے کہ کمی خامیاں کہاں ہیں، لیکن یہ دیکھنا حوصلہ بڑھاتا ہے کہ دنیا میں مردوں اور عورتوں کی اکثریت اپنے رہنماؤں سے صنفی مساوات کے مطالبے کر رہی ہے۔”
جولائی اور اگست 2020ء کے مہینوں میں کیے گئے اس سروے میں صنفی مساوات کے چھ اہم معاملات پر عوامی رائے طلب کی گئی اور اب اس کے نتائج ایک جامع تصویر پیش کرتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ کووِڈ-19 نے کس طرح لوگوں کی زندگیوں، ذریعہ معاشی اور ذہنی صحت پر اثرات مرتب کیے ہیں۔ سروے میں شرکاء سے صنفی امتیاز کے حوالے سے ذاتی تجربات اور اس حوالے سے اپنے تاثرات بھی پوچھے گئے تھے۔ ان سوالات سے سامنے آنے والے اہم نتائج یہ ہیں:
دنیا بھر میں عوام نے وبا کے خلاف ردعمل میں تمام حوالوں سے خواتین کے کردار کی حمایت کی، اوسطاً 82 فیصد افراد نے کہا کہ وہ اس وبا کے خلاف خواتین کو ہر سطح پر شامل دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہے، ایک طرف وبا کے خلاف صف اول میں کام کرنے والے صحت کے شعبے میں خواتین کی تعداد 70 فیصد تک ہے، لیکن کووِڈ-19 رسپانس کمیٹیوں میں وہ صرف 24 فیصد ہیں۔
کووِڈ-19 کے خواتین پر اثرات بہت واضح اور نمایاں ہیں۔ 18 سے 44 سال عمر کی خواتین گھریلو کاموں کے اضافے بوجھ اور زیادہ ذہنی دباؤ کے خدشات سے دوچار ہیں۔ سروے میں شامل 17 میں سے 13 ممالک میں خواتین میں مردوں کے مقابلے میں زیادہ جذباتی دباؤ اور ذہنی صحت کے چیلنجز ظاہر ہوئے۔
نوجوان، بالخصوص نو عمر خواتین، صنفی مساوات کے حوالے سے حکومتوں سے زیادہ توقعات رکھتی ہیں۔ تمام ممالک میں 18 سے 24 سال کی خواتین میں ہر چار میں سے تین نے اپنی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ ووہ ملک میں صنفی مساوات کے لیے سرمائے کو بڑھائیں، جبکہ اوسطاً یہ شرح ہر تین میں سے دو تھی۔
اوسطاً 57 فیصد خواتین نے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کسی نہ کسی سطح پر صنفی امتیاز کا سامنا کیا ہے، جس میں سب سے زیادہ شرح درمیانی آمدنی والے ممالک کینیا (83 فیصد)، بھارت (81 فیصد) اور جنوبی افریقہ (72 فیصد) دیکھی گئی۔
امریکا میں سیاہ فام خواتین نے گزشتہ 25 سال کے دوران صنفی مساوات میں بہتری سے اتفاق نہیں کیا، جبکہ ان کے مقابلے میں سفید فام کا کہنا تھا کہ پچھلے 25 سالوں میں صنفی مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ رحجان کسی دوسرے ملک میں نہیں دیکھا گیا، جن میں جنوبی افریقہ جیسا نسلی امتیاز کی تاریخ رکھنے والا ملک بھی شامل ہے۔
صنفی مساوات کے حامی مختلف نسلوں، سیاسی وابستگیاں رکھنے والوں اور سماجی و معاشی گروہوں میں موجود ہیں۔ عورتیں مردوں کے مقابلے میں صنفی مساوات کی زیادہ حامی ہیں، لیکن مردوں کی بھی ایک بڑی تعداد صنفی مساوات کی حمایت کرتی ہے۔
سروے میں صنفی مساوات کے چھ اہم کے معاملات پر رائے لی گئی تھی:
- خواتین پر تشدد
- خواتین کے لیے معاشی عدل اور حقوق
- خواتین کی تحاریک اور قیادت
- جنسی و تولیدی صحت اور حقوق
- خواتین اور موسمیاتی تبدیلی
- صنفی مساوات کے لیے ٹیکنالوجی
صنفی مساوات کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر سپورٹ موجود ہونے کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ خواتین کو مسلسل امتیازی رویے، گھریلو تشدد اور مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہوں جیسے بڑے مسائل کا سامنا ہے اور یہ صنفی مساوات میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اس وقت خواتین اور مردوں کو عالمی سطح پر پیشہ ورانہ، سیاسی اور معاشی لحاظ سے برابر کرنے کے لیے جس رفتار سے پیشرفت ہو رہی ہے، صنفی مساوات کی منزل حاصل کرنے میں مزید ایک صدی لگ جائے گی۔
Pingback: گھر، صنفی عدم مساوات کا اصل گڑھ - دی بلائنڈ سائڈ
Pingback: کووِڈ کی وجہ سے اسکولوں کی طویل بندش سے صنفی مساوات کو خطرہ - دی بلائنڈ سائڈ