ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کی کُل آبادی 7.8 ارب ہے اور اس میں سالانہ 9 کروڑ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر مردوں اور عورتوں کی آبادی تقریباً برابر ہے بلکہ مرد عورتوں سے تھوڑے سے زیادہ ہی ہیں۔ 2015ء کے اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ہر 100 عورتوں پر دنیا میں مردوں کی تعداد 101.8 یعنی عورتیں عالمی آبادی کا 49.6 فیصد ہیں۔
گو کہ انسانوں میں صنفی بنیاد پر تقسیم تقریباً 1:1 ہی ہے، لیکن دنیا کے کئی ممالک میں عورتوں اور مردوں کی یہ تقسیم برابر نہیں ہے۔ چند ممالک میں تو عورتیں تشویشناک حد تک زیادہ ہیں۔ بلکہ ایسے ممالک کی تعداد 100 سے زیادہ ہے کہ جہاں عورتیں مردوں سے زیادہ ہیں۔ ان میں سے ٹاپ 10 ملکوں میں عورتوں کی آبادی کم از کم 53 فیصد ہے۔
اس کے چند پسِ پردہ عوامل ہیں، جن میں متوقع عمر (life expectancy) کا زیادہ ہونا اور جنگ سمیت دیگر عوامل شامل ہیں۔
صنفی تناسب مجموعی طور پر معاشرے اور قوم پر اثرات مرتب کرتا ہے۔ ان دونوں کی تعداد میں موجود فرق جان کر ملک اپنے وسائل کو صنفی لحاظ سے ترتیب دیتے ہیں اور اپنی آبادی کی مخصوص ضروریات پوری کرنا ممکن بناتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ان ممالک اور معاشروں میں جہاں صنفی عدم توازن زیادہ ہے، اس کے اسباب جاننے اور اسے کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں:
تو یہ رہے وہ 10 ممالک کہ جہاں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے:
نیپال
عالمی بینک کے مطابق نیپال میں خواتین کی آبادی مردوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ نیپال کی آبادی میں خواتین کا حصہ 54.4 فیصد ہے، یعنی ملک میں تقریباً 1.56 کروڑ عورتیں اور 1.3 کروڑ مرد۔ اعداد و شمار کے مطابق نیپال میں ہر 100 خواتین پر صرف 83.8 مرد موجود ہیں۔
گو کہ نیپال خطے کے دوسرے ملکوں کی طرح ایک مردوں کا معاشرہ ہی ہے، لیکن یہاں پر مردوں کے مقابلے میں تقریباً 20 لاکھ خواتین زیادہ ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو خواتین کی متوقع عمر مردوں سے زیادہ ہونا ہے۔ نیپال میں اوسط متوقع عمر 71 سال ہے، جس میں مردوں کی 70.4 سال اور عورتوں کی 71.6 سال ہے۔ اس لیے عورتیں مردوں سے زیادہ زندگی جیتی ہیں۔ دوسری وجہ نیپالی مردوں کی بڑی تعداد کا روزگار کے لیے بیرونِ ملک ہجرت کرنا ہے اس لیے خواتین، بزرگ اور بچے ہی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ حکومت کے مطابق روزانہ نیپال سے 1,500 افراد، جن میں اکثریت مردوں کی ہوتی ہے، بیرونِ ملک جا رہے ہیں۔
کوراچاؤ
یہ ویسٹ انڈیز میں واقع ایک جزیرہ ہے، جس کی آبادی تقریباً 1,57,500 ہے۔ اس میں سے 54 فیصد یعنی 85,207 خواتین ہیں یعنی کہ ہر 100 خواتین پر یہاں 84.8 مرد ہیں۔ حالانکہ پیدائش کے وقت مردوں کی تعداد عورتوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق بوقتِ پیدائش یہاں 100 لڑکیوں پر 115 لڑکے پیدا ہوتے ہیں لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ لڑکوں کی تعداد گھٹتی جاتی ہے۔ نیپال کی طرح کوراچاؤ کی خواتین میں بھی متوقع عمر زیادہ ہے، 82.1 سال، جبکہ مردوں میں یہ 76.4 سال ہے یعنی یہاں بھی عورتیں مردوں سے زیادہ جیتی ہیں۔ اس کے علاوہ کوراچاؤ سے بھی ہجرت کا تناسب بہت زیادہ ہے، خاص طور پر مردوں میں۔
ہانگ کانگ
ہانگ کانگ میں مردوں اور عورتوں کی شرح 85:100 ہے، یعنی کہ ہر 100 خواتین پر یہاں 85 مرد ہیں۔ 75 لاکھ کی آبادی والے ہانگ کانگ میں خواتین آبادی کا 54 فیصد یا 40.5 لاکھ ہیں۔ ہانگ کانگ چین کے زیر انتظام علاقہ ہے، جبکہ چین میں عورتیں کُل آبادی کا 48.7 فیصد ہیں۔
1980ء کی دہائی سے ہانگ کانگ میں پیدائش کے وقت لڑکوں کی شرح لڑکیوں سے زیادہ ہے، لیکن چین سے خواتین کی یہاں آمد یہاں ان کی آبادی بڑھنے کا سبب بنی ہے۔ یہ خواتین یا تو روزگار کے لیے چین آتی ہے یا شادی کے بعد ہانگ کانگ منتقل ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے یہاں صنفی توازن خواتین کے حق میں چلا گیا ہے۔
خواتین کی زیادہ شرح رکھنے والے یورپی ممالک
سابق سوویت ریاستوں اور مشرقی یورپ میں اُس کے اتحادی ملکوں میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔ مثلاً لیٹویا میں یہ شرح 54 فیصد ہے، لتھووینیا میں 53.7 فیصد، روس میں 53.7 فیصد اور بیلاروس میں 53.5 فیصد۔ البتہ ان میں سے بیشتر ممالک میں نومولود لڑکے نومولود لڑکیوں سے زیادہ ہی ہیں۔ لیکن 25 سے 30 سال اور اس سے آگے کی عمر میں خواتین مردوں سے زیادہ ہیں۔ مثلاً روس میں ہر 100 خواتین پر 86 مرد موجود ہیں، جبکہ لیٹویا میں 100 خواتین پر مردوں کی تعداد 84.6 ہے۔
یہاں 19 ویں صدی کے اواخر میں مردوں کی تعداد تقریباً عورتوں کے برابر تھی۔ مثلاً 1897ء کی پہلی مردم شماری کے مطابق روس میں ہر 100 خواتین پر مردوں کی تعداد 98 تھی۔ لیکن 20 ویں صدی کے اوائل سے وسط تک کئی ایسے واقعات پیش آئے جن کی وجہ سے صنفی عدم توازن پیدا ہوا۔ بڑے پیمانے پر قحط، عالمی جنگیں، روس میں خانہ جنگی اور پھر سوویت یونین میں سیاسی کشمکش کا دور۔ دوسری عالمی جنگ عظیم کے سوویت یونین کی آبادی پر بہت بھیانک اثرات مرتب ہوئے تھے۔ مردوں کی بڑی تعداد فوج میں بھرتی کی گئی اور ان میں سے بہت سے جنگ میں مارے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ 1959ء تک سوویت یونین میں ہر 100 خواتین پر 82 مرد رہ گئے۔ جو ملک اس عرصے میں جنگ کا میدان بنے رہے، مثلاً یوکرین میں تو یہ شرح 100 خواتین پر 72 مرد تک پہنچ گئی۔ آجکل اس کی وجہ سے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ان ممالک کا اچانک سوشلزم سے نکل کر مارکیٹ اکانمی میں تبدیل ہو جانا معاشی زوال کا نشانہ بننا اہم ہے۔ اس کے نتیجے میں یہاں کے لوگ بری طرح متاثر ہوئے اور ذہنی تناؤ کی وجہ سے مردوں میں تمباکو اور شراب نوشی کا رحجان بہت بڑھ گیا، ان کی شرحِ اموات میں اضافہ ہوا۔
ایل سیلواڈور
لاطینی امریکا کا ملک ایل سیلواڈور تقریباً 64.5 لاکھ کی آبادی رکھتا ہے جس میں سے 34.3 لاکھ یعنی 53.2 فیصد خواتین ہیں۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ہر 88 مردوں پر ایل سیلواڈور میں 100 خواتین ہیں۔ ملک کا صنفی توازن 1950ء میں 100 خواتین پر 97 مرد تھا، جو آہستہ آہستہ گرتے ہوئے یہاں تک پہنچا ہے۔ اس کے ممکنہ اسباب خواتین میں متوقع عمر اور مردوں میں ترکِ وطن کی زیادہ شرح ہیں۔
صنفی عدم توازن کے سماج پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو خاندانی ڈھانچے اور خواتین بلکہ مردوں اور معاشرے کے لیے بھی خطرات رکھتے ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال خواتین کی بڑی تعداد کا غیر شادی شدہ رہ جانا ہے، کیونکہ اتنے مرد ہوتے ہی نہیں جو ان سے شادیاں کریں۔ یہاں سے دوسری اور تیسری شادی کا رحجان تقویت پاتا ہے اور خواتین مجبور ہوتی ہیں۔ پھر ایسے معاشروں میں جہاں خواتین کی بڑی تعداد چاہنے کے باوجود شادیاں نہ کر سکیں، وہاں ان کا انسانی اسمگلنگ اور جنسی استحصال کرنے والوں کے ہتھے چڑھ جانا بھی آسان ہو جاتا ہے۔
جواب دیں