غیر محفوظ اسقاطِ حمل، پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ

پاکستان میں غیر محفوظ ابورشن یعنی اسقاطِ حمل کے مسائل دہائیوں سے ہیں اور خواتین قانون کے باوجود اپنی جان کو خطرے میں ڈالتی ہیں اور اس کی ایک مثال چند روز قبل لاہور میں پیش آنے والا واقعہ بھی ہے۔

پاکستان میں ابورشن کے حوالے سے آخری تحقیق 2012ء میں کی گئی تھی، جو ایک مایوس کن تصویر پیش کرتی ہے۔ اس کے مطابق 15 سے 44 سال کی عمر کی ایک ہزار خواتین میں سے 50 کو ابورشن کروانا پڑتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر خواتین ایسی ہیں جن کی عمریں زیادہ ہیں، شادی شدہ مائیں ہیں، کم آمدنی والے خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ ہے غیر تربیت یافتہ اور اتائیوں کے پاس جانا۔ ان خواتین میں سے چند کو تو انتہائی خطرناک مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جیسا کہ ملیریا کی گولیاں بڑی مقدار میں کھانا یا تیز دھار آلات کا استعمال وغیرہ۔

رپورٹ کے اندازوں کے مطابق 2012ء میں پاکستان میں 6,23,000 خواتین کو ان اتائیوں کے ہاتھوں ابورشن کروانے کی وجہ سے کئی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جن میں نامکمل ابورشن، خون کا بہت زیادہ بہنا، تولیدی اعضا میں زخم وغیرہ شامل ہیں۔

اس کے باوجود خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد اتائیوں کے ہتھے چڑھ رہی ہے، جس کی وجہ خواتین میں شعور نہ ہونا اور ابورشن کے حوالے سے معاشرے میں ایک غلط رائے کا پایا جانا ہے۔ خواتین سوچتی ہیں کہ دوسروں کو ان کے حمل یا ابورشن کے بارے میں پتہ نہ چل جائے، کہیں ہسپتال کا عملہ انکار نہ کر دے یا پھر وہ ان کے بارے میں کیا سوچے گا، وغیرہ۔ زیادہ تر پاکستانیوں کے لیے ابورشن ایک گناہ ہے۔

حکومتِ پاکستان اور متعدد غیر سرکاری انجمنیں (این جی اوز) ملک میں تولیدی صحت کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں، لیکن اس کا اتنا فائدہ نہیں ہو رہا۔ پاکستانی ابورشن ہاٹ لائن ‘اویئر گرلز’ کی بانی صباء اسماعیل کہتی ہیں کہ "میں کمیونٹی، اسٹیک ہولڈرز اور این جی اوز کے ساتھ مل کر کام کرتی ہوں، جہاں بھی جاتے ہیں یہی سننے کو ملتا ہے کہ ابورشن قتل ہے اور ملک میں ایسا کرنا غیر قانونی ہے۔”

پاکستان کا قانون کہتا تھا کہ ابورشن ایک جرم ہے، جب تک کہ اسے عورت کی زندگی بچانے کے لیے نہ کیا جائے۔ 1990ء میں اس قانون میں ترمیم کی گئی کہ حمل کے ابتدائی 120 دن کے دوران "ضروری علاج” درپیش آ جائے تو ابورشن کی اسلامی احکامات کے مطابق اجازت ہے۔

ڈاکٹر اور پبلک ہیلتھ سکیورٹی ماہر ڈاکٹر ظاہر گل کہتے ہیں کہ "یہ قانون عورت کے جسم کو ضابطوں میں لانے کی کوشش نہیں کرتا۔ عورت کی صحت کے لیے کیا ضروری ہے اس کو خود سے طے نہیں کرتا کیونکہ یہ ایک ڈاکٹر کا کام ہے۔ یہ قانون سب کچھ ایک تربیت یافتہ ماہر پر چھوڑتا ہے جو صحت اور طبی ضروریات یہاں تک کہ عورت کی سماجی ضروریات کو بھی سمجھ سکتا ہے۔”

لیکن چند حلقوں کا کہنا ہے کہ ابورشن کے مقامی قانون ابہام موجود ہے، جس کی وجہ سے غیر محفوظ ابورشن بڑھتا جا رہا ہے اور اس کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جیسا کہ "ضروری علاج” کیا ہے؟ اسے واضح نہیں کیا گیا۔ تو جب کئی طبی ماہرین صرف انتہائی سنجیدہ طبّی حالت میں ہی ابورشن کا فیصلہ کرتے ہیں تو خاتون غیر تربیت یافتہ دائیوں اور اتائیوں سے ہی ابورشن کروانے پر آمادہ ہو جاتی ہے، جو انتہائی خطرناک ہے۔

صحت کے شعبے سے وابستہ زیادہ تر ماہرین تک ابورشن کے حوالے سے اچھی رائے نہیں رکھتے۔ صباء اسماعیل بتاتی ہیں کہ انہوں نے کئی گائناکولوجسٹس سے ملاقات کی، جو فخریہ کہتی ہیں کہ انہوں نے کبھی کسی کو ابورشن پر آمادہ نہیں کیا۔ کئی ڈاکٹرز تک اس سے آگاہ نہیں کہ ابورشن قانونی دائرے کے اندر آتا ہے۔

پاکستان میں ابورشن کا قانون میڈیکل کالجز میں پڑھائے جانے والے نصاب کا حصہ نہیں ہے۔ گائناکولوجسٹ اور تولیدی صحت کی ماہر ڈاکٹر مریم اقبال بتاتی ہیں کہ ہم سنی سنائی پر یقین کرتے تھے۔ جب میں میڈیکل اسکول میں تھی تو ہمیشہ سوچتی تھی کہ ابورشن ایسی چیز ہے جو ڈاکٹر کبھی نہیں کرتے ہوں گے اور اگر ایسا کیا تو ڈاکٹری کا لائسنس منسوخ ہو جائے گا۔ جب میں نے عملاً پریکٹس شروع کی اور تولیدی صحت کے کئی اداروں کے ساتھ کام کیا، تب مجھے اندازہ ہوا۔ پھر میں نے اس بارے میں پڑھا تو پتہ چلا کہ قانون تو بالکل سادہ سا ہے اور وہ ابورشن کے فیصلے کا مکمل اختیار ڈاکٹر کے ہاتھ میں دیتا ہے۔

پاکستان خطے کے ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں مانع حمل ذرائع کا استعمال بہت کم ہے۔ اس کا نتیجہ غیر ارادی حمل ٹھہرنے کی صورت میں نکلتا ہے اور یہی ملک میں ابورشنز کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

ماہرین کی نظر میں غیر محفوظ ابورشن کی شرح کم کرنے کا ایک طریقہ دائیوں کی تربیت ہے۔ پاکستان میں صحت کے نظام میں دائیوں کا کردار بہت اہم ہے۔ بہت سی خواتین ایسی ہیں جو کسی بھی قسم کے علاج کے لیے ہسپتالوں کا رخ نہیں کرتیں۔ ملک میں تقریباً 70 فیصد ڈلیوریز ہسپتالوں سے باہر ہوتی ہیں، جن میں سے کئی دائیوں کے ہاتھوں ہوتی ہیں۔ اگر ان کی ڈھنگ سے تربیت کی جائے اور انہیں مانع حمل ذرائع استعمال کرنے سے آگہی دی جائے تو وہ خواتین کو مشورے دے سکتی ہیں اور مانع حمل ذرائع کے استعمال میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

جب تک خواتین کو ایک محفوظ اور بلا امتیاز علاج تک رسائی نہیں ملتی، تب تک غیر محفوظ اسقاطِ حمل ہوتے رہیں گے۔ یوں خواتین کو موت یا معذوری سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے مل کر کام کرنے، صحت کے حوالے سے پالیسیوں اور عملی اقدامات کو فروغ اور صرف قوانین ہی نہیں بلکہ معاشرے کے نظریات میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے