آن لائن سیفٹی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے ڈجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) نے فریڈریخ نومین فاؤنڈیشن فار فریڈم (ایف این ایف) کے تعاون سے ایک خصوصی نصاب جاری کیا ہے۔
خاص طور پر نوعمر افراد کے لیے تیار کردہ یہ آن لائن سیفٹی نصاب شمائلہ خان، محمد عثمان اور سیرت خان کی کاوش ہے جبکہ اس کی تدویر مریم سعید اور نگہت داد نے کی ہے۔ اس نصاب کا مقصد طلبہ اور نوعمر افراد کو آن لائن دنیا کی بہتر سوجھ بوجھ عطا کرنا ہے۔
انٹرنیٹ آج ہماری زندگیوں کا ایک اہم حصہ ہے اور اس نے پاکستان میں ڈجیٹل ماحول کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق کرونا وائرس کے بعد لاک ڈاؤن کے ایام میں ملک میں انٹرنیٹ کے استعمال میں 15 فیصد اضافہ ہوا لیکن اس کے باوجود ملک میں سائبر سکیورٹی کے حوالے سے شعور بہت کم ہے۔
اس نصاب میں جن اہم موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے، وہ باقاعدہ تحقیق شدہ ہیں۔ امید ہے کہ ان سے پاکستانی نوجوانوں کو ڈجیٹل خواندگی اور اپنے حقوق کے بارے میں معلومات ملے گی۔
پاکستان میں ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں کہ جن میں محض انٹرنیٹ کے عام استعمال پر خواتین پر حملے ہوئے ہیں، جیسا کہ اپنی تصویر فیس بک پر ڈالنے پر۔ اس لیے انٹرنیٹ کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
پھر ایک ایسے وقت میں جب ٹیکنالوجی کے حوالے سے ہم مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں اور بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد آن لائن وقت گزار رہی ہے اور وہ سوشل نیٹ ورکنگ اور گیمنگ کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن آن لائن سرگرمیوں کے بے پناہ فوائد کے ساتھ ساتھ اس کا ایک تاریک پہلو بھی ہے۔ یہاں خاص طور پر بچوں کو جو خطرات درپیش ہیں، ان میں بے ہودہ تصاویر اور لوٹنے، دھمکانے اور ہراساں کرنے والوں کی آن لائن موجودگی شامل ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ یہ نصاب سائبر دھمکیوں اور ڈیٹا پروٹیکشن سمیت کئی اہم موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ آن لائن ہراسگی کا ہدف بننے والے نوجوانوں کو قانونی رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔
علاوہ ازیں، کرونا وائرس کے دوران طلبہ کی بڑی تعداد بھی آن لائن کلاسز کی جانب منتقل ہوئی لیکن انٹرنیٹ تک رسائی کے حوالے سے شہری اور دیہی علاقوں کی خلیج زیادہ نمایاں ہوئی۔ اس نصاب کی توجہ آن لائن مقامات اور ٹیکنالوجی تک رسائی کے حوالے سے عدم مساوات پر بھی ہے۔
یہ نصاب نوجوانوں کو آزادئ اظہار کے حوالے سے شعور بھی دیتا ہے جو ایسا موضوع ہے جسے عموماً غلط سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا آئین آزادئ اظہار کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن آزادئ اظہار کی چند حدود ہیں، آن لائن بھی اور آف لائن بھی۔ الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016ء کے تحت آن لائن گفتگو میں نفرت انگیزی پھیلانا، کسی کا بہروپ اختیار کرنا، جھانسا دینا، ہتک عزت اور سائبر دہشت گردی جرائم شمار ہوتے ہیں۔
یہ نصاب انٹرنیٹ کیا ہے؟ سے لے کر کسی مسئلے کا شکار ہونے کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے طریقوں تک اس موضوع کا مختصراً لیکن جامع احاطہ کرتا ہے۔
جواب دیں