انقلابِ مصر کے 10 سال، حقوقِ نسواں کی تحریک کو آج بھی جدوجہد کا سامنا

دس سال پہلے 25 جنوری کو مصر کے تحریر چوک پر ایک عظیم انقلاب رونما ہوا، "روٹی، آزادی اور سماجی انصاف” کے نعرے لگاتے مظاہرین سڑکوں پر تھے اور ان کا مطالبہ تھا صدر حسنی مبارک استعفیٰ دیں۔ ایک آمر جو دہائیوں سے مصر پر قابض تھے۔ بالآخر تین ہفتے بعد، 11 فروری کو، حسنی مبارک نے صدر کا عہدہ چھوڑ دیا اور ملک فوج کے کنٹرول میں آ گیا۔

لیکن پھر جو کچھ ہوا وہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بیان میں واضح ہے کہ تحریر چوک پر مظاہرہ کرنے والی چند خواتین کو 9 مارچ 2011ء کو تحویل میں لیا گیا، عالمی یومِ خواتین کے اگلے ہی دن اور انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس میں زدوکوب کرنا، بجلی کے جھٹکے دینا، کپڑے اتار کر تلاشی لینا اور زبردستی ‘کنوارپن کے ٹیسٹ’ لینا شامل تھا بلکہ انہیں دھمکیاں تک دی گئی ہیں کہ ان سے دھندا کروایا جائے گا۔ میجر جنرل عبد الفتاح سیسی، جنہوں نے بعد ازاں مصر کی پہلی جمہوری حکومت کا تختہ بھی اُلٹا، یہ کہتے پائے گئے کہ ان خواتین کے ‘کنوار پن کے ٹیسٹ’ اس لیے لیے گئے تاکہ فوج کو ریپ کے ممکنہ الزامات سے "بچایا” جا سکے۔ جب انتظامی عدالت نے اس حرکت کے خلاف فیصلہ دیا اور اس عمل کو غیر قانونی قرار دیا تو ایک فوجی عدالت نے اس معالج کو بری کر دیا کہ جس نے یہ ٹیسٹ کیے تھے اور یوں واضح پیغام دیا کہ جسے وہ چاہیں گے، اسے کھلی چھوٹ حاصل ہوگی۔

مصر میں انقلاب کی ایک دہائی بعد آج بھی ملک اسی کلچر کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ 2013ء میں اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ نے پایا تھا کہ تقریباً تمام ہی مصری خواتین، سروے میں شامل 99 فیصد عورتیں جنسی ہراسگی کا شکار رہی ہیں۔ مصر انسانی حقوق کی ان بدترین خلاف ورزیوں اور جنسی تشدد کے الزامات سے مسلسل انکاری ہے۔ 2020ء میں حقوقِ نسواں کی انجمنوں نے اندازہ لگایا کہ ملک میں تقریباً 60 ہزار سیاسی قیدی ہیں کہ جن میں سیاسی کارکن، صحافی اور وکلاء بھی شامل ہیں۔

مصر میں انسانی حقوق کی توانا ترین آوازوں میں سے ایک مزن حسن ہیں، جو ‘نظرہ’ کی بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ آپ مصر میں انقلاب 2011ء سے کہیں پہلے سے حقوقِ نسواں کے لیے کام کر رہی ہیں اور خواتین کے حقوق کا دفاع کرنے والوں کی قانونی و نفسیاتی حوالوں سے مدد کرتی ہیں۔ نظرہ کا قیام 2005ء میں عمل میں آیا اور وہ مصر اور مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ میں عورتوں کے لیے کام کر رہا ہے۔

مزن حسن کہتی ہیں کہ "خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر آپ کو بہت کچھ کھونا پڑے گا، ریاستی عناصر آپ کو ہدف بنائیں گے، اثاثے منجمد ہوں گے، سفری پابندیاں لگیں گی، خواتین کو "غیر ضروری آزادی” دینے کی حمایت کرنے سے مقدمات کی دھمکیاں ملیں گی جن کی وجہ سے آپ زندگی بھر کے لیے قید میں جا سکتی ہیں۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں۔”

2016ء سے خود مزن حسن پر سفری پابندیاں عائد ہیں، جبکہ نظرہ کو مقدمات کے ذریعے پہلے سے ہراساں کیا جاتا رہا ہے، جس میں فارن فنڈنگ کیس پر طلبی بھی شامل ہے۔ جنوری 2017ء میں قاہرہ کی ایک عدالت نے مزن حسن اور ان کے ادارے کے اثاثے منجمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ پھر گزشتہ سال جولائی میں شمالی قاہرہ کی فوجداری عدالت نے سفری پابندی کے خلاف دائر اپیل مسترد کر دی اور بعد ازاں نظر ثانی کی درخواست بھی ملتوی کر دی۔

"نظر کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ واضح مثال کے کہ پدر شاہی (patriarchy) اور قدامت پسندی نسوانیت اور حقوقِ نسواں کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کو کبھی قبول نہیں کر سکتی۔ میں انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں میں سے صرف ایک ہوں جسے خواتین کی ‘غیر ضروری آزادی’ کی حمایت پر اِن حالات کا سامنا ہے۔”

"ہم نے کئی تکالیف سہیں، نقصانات اٹھائے، مصائب برداشت کیے۔ باقاعدہ جنسی حملے دیکھے، اپنی ساتھیوں کو انقلاب کے 10 سال مکمل ہونے کا جشن جیل میں مناتے دیکھ رہے ہیں، وہ بھی کووِڈ-19 کے دوران۔ اس وقت ہم خواتین کی تحریکوں کو اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے اور لڑتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔”

نومبر 2019ء میں اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک نے جنیوا میں انسانی حقوق پر اپنے آفاقی میعادی جائزے (UPR) میں مصر میں انسانی حقوق کے بحران پر سخت تنقید کی اور تشدد اور بد سلوکی کے خاتمے، افواج کی جانب سے کیے جانے والے جرائم کی تحقیقات، غیر سرکاری اداروں اور کارکنوں کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دینے اور دہشت گردی سے نمٹتے ہوئے انسانی حقوق کی حفاظت کرنے کا مطالبہ کیا۔ اقوام متحدہ کی کمشنر برائے انسانی حقوق مچیل بیچلیٹ، اور متعدد ماہرین بھی، بارہا مصر کی مذمت کر چکے ہیں۔ متعدد ممالک نے بھی اس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین پر تشدد کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔

جبکہ اس دوران مصر میں حالات یہ رہے کہ جمہوریت کا تختہ الٹا گیا، ملک میں معاشی بحران آیا، روزگار کے مواقع گھٹ گئے، انسانی حقوق کی صورت حال بدترین رُوپ دھار چکی ہے، بدترین فوجی آمریت شکنجے گاڑے بیٹھی ہے، صحت عام کا نظام ناکارہ ہے اور انتہائی غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ) صحافیوں کی گرفتاری کے حوالے سے چین اور ترکی کے بعد مصر کو بدترین ملک قرار دیتی ہے۔

مزن کہتی ہیں کہ آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے، یہ سمجھنا کہ ہم یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں اور جو کر رہے ہیں وہ حق کی جدوجہد ہے۔ ہمیں عوام کا ساتھ حاصل ہے، چھوٹی موٹی تبدیلیاں آ رہی ہیں لیکن آزادی اور جمہوریت کے بغیر نقصان ہمیشہ پہنچنے والے فوائد سے زیادہ ہی ہوگا۔ ہمیں سیاسی ارادے کے ساتھ ایک جامع وژن کی ضرورت ہے۔ اس صورت حال میں یکجہتی ہی میں وہ راز پنہاں ہے جو ہمیں مسلسل کام کرنے میں مدد دیتا ہے اور ہماری راہ میں روڑے اٹکانے والوں سے ہمیں بچاتا ہے۔ ‘نظرہ’ میں ہماری جدوجہد کی، اور میرے لیے ذاتی طور پر بھی، سب سے اہم اتحاد و یکجہتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے