اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ ظاہر کر رہی ہے کہ انسانی اسمگلنگ کا نشانہ بننے والی اور جنسی استحصال کی شکار خواتین یا لڑکیاں خود بھی انہی جرائم کی مرتکب ہو سکتی ہیں۔ اس تحقیق کا مقصد ان پیچیدہ مقدمات کو بہتر انداز میں سمجھنا اور حقیقی مظلوموں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
اس رپورٹ میں 2017ء میں کینیڈا میں سامنے آنے والے مقدمے کو مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس میں ایک 18 سالہ لڑکی پر الزام تھا کہ اس نے دو نو عمر لڑکیوں کو جبراً عصمت فروشی پر مجبور کیا۔ ان میں سے ایک کی عمر 14 سال تھی اور دوسری کی 16 سال۔ ان لڑکیوں کو گاہکوں سے نمٹنے کے طریقے بھی سکھائے گئے اور ان سے موبائل فونز بھی چھین لیے گئے تھے تاکہ وہ کسی سے رابطہ نہ کر سکیں اور فرار نہ ہو پائیں۔
عدالت نے اسے جرم کا مرتکب قرار دے کر 8 ماہ قید کی سزا سنائی لیکن اس مقدمے کی پیروی کے دوران بہت کچھ پتہ چلا جیسا کہ مجرم خود بھی جنسی استحصال کا نشانہ بنی تھی۔ عدالت نے پایا کہ وہ دراصل انسانی اسمگلنگ کرنے والے ایک شخص کے لیے کام کر رہی تھی، اور 16 سال کی عمر سے خود استحصال اور جسمانی تشدد کا نشانہ تھی۔
یہ کیس اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (UNODC) کی جاری کردہ رپورٹ Female Victims Of Trafficking For Sexual Exploitation As Defendants میں شامل ہے، جس سے انسانی اسمگلنگ سے حوالے سے کئی مقدمات کی پیچیدگی ظاہر ہوتی ہے، یعنی "مجرم” خود بھی مظلوم ہو سکتا ہے کہ جس کے پاس حکم ماننے اور جرم کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ تو اسے امید ہوتی ہے کہ ایسا کرنے سے اس پر ظلم میں کمی آئے گی یا غربت کے چنگل سے فرار کی کوشش اسے مجرم بنا دیتی ہے۔
تحقیق نے یہ بھی پایا کہ انسانی اسمگلنگ کرنے والے دراصل خواتین اور لڑکیوں کو بطور ڈھال استعمال کرتے ہیں، تاکہ ان کے جرائم کی سزا کوئی اور پائے۔
اس تحقیق میں شامل UNODC کی عہدیدار زوئی ساکیلیادو نے کہا کہ 15 سال پہلے سے جب سے ان کا ادارہ انسانی اسمگلنگ کے اعداد و شمار اکٹھے کر رہا ہے، مظلوموں کی اکثریت خواتین اور لڑکیوں پر مشتمل دیکھی ہے۔
انسانی اسمگلنگ جیسے جرم کا ارتکاب کرنے والی خواتین، جو خود بھی اس کا نشانہ ہوتی ہیں، کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر اگر اس کا تقابل دیگر جرائم کی مرتکب خواتین سے کیا جائے تو۔ انسانی اسمگلنگ کے مرتکب نہ صرف ان کے جنسی استحصال سے فائدہ اٹھاتے ہیں، بلکہ ان خواتین اور لڑکیوں سے وہ جرائم بھی کرواتے ہیں جن سے وہ خود قانون کی گرفت سے بچ سکیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے مرتکب افراد ایسی خواتین کا استعمال ایسے چھوٹے موٹے کاموں میں کرتے ہیں جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظروں میں آنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ نئی لڑکیاں بھرتی کرنا، کمائی جمع کرنا، سزائیں دینا اور دھندے کی تشہیر کرنا۔ کچھ واقعات میں تو مظلوم خواتین آگے بڑھنے یا مالی فائدہ حاصل کرنے کے لیے بھی ایسے اقدامات کا حصہ بن جاتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے محض اعداد و شمار ہی کے لیے اس موضوع کا تجزیہ نہیں کیا بلکہ ساکیلیادو نے وضاحت کی کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوجداری مقدمات میں شامل عہدیداروں کی جانب سے مطالبات بھی وجہ تھے کہ جنہیں انسانی اسمگلنگ کی مرتکب خواتین کے معاملات میں تحقیقات کے دوران اور مقدمات میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ وہ خود بھی اس ظلم کا نشانہ ہوتی ہیں۔
تحقیق سے انسانی اسمگلنگ اور خواتین پر تشدد، گھریلو تشدد اور اپنے ساتھی کے ہاتھوں تشدد کے درمیان ربط بھی ظاہر ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ہم نے تقریباً ایک چوتھائی کیسز میں پایا کہ اسمگلنگ کے قبیح فعل کی مرتکب خواتین خود بھی کئی اقسام کے تشدد کا سامنا کرتی ہیں، جن میں کم عمری میں تشدد بھی شامل ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ تحقیق قانون نافذ کرنے والے اداروں، فوجداری مقدمات کی سماعت کرنے والوں اور این جی اوز کو پیچیدہ معاملات دیکھنے اور ظلم کی شکار خواتین
خواتین اسمگلنگ کے عمل میں شامل ہونے سے پہلے یا دوران کئی اقسام کے تشدد کا خود سامنا کرتی ہیں کہ جن میں کم عمری میں ہونے والا تشدد بھی شامل ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ تحقیق ایسے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوجداری مقدمات سننے والے عملے اور این جی اوز کو مدد دے گی جو ایسے پیچیدہ معاملات کو سنبھالتے ہیں اور ظلم کی شکار خواتین کو سنبھالتے ہیں۔
جواب دیں