کرونا وائرس کی وباء نے دنیا کو اچانک آن دبوچا اور اس کے بعد جن مسائل نے جنم لیا، انہی میں سے ایک عورتوں اور بچوں کی بہبود اور تحفظ بھی ہے۔ خواتین پر تشدد اور بچوں پر تشدد دنیا بھر میں بہت زیادہ پھیلے، جو ایسے مسائل جو باہم منسلک بھی ہیں، ان کے عوامل بھی یکساں اور سنگین نتائج بھی مشترک ہیں۔ گو کہ وباء کے دوران حقائق تک پہنچنا مشکل ہے لیکن اس امر کے کافی شواہد موجود ہیں جن کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ سماجی تنہاؤ، بڑھتا ہوا مالی دباؤ، اداروں کا کمزور ردِعمل اور دیگر کئی عوامل نے خواتین اور بچوں پر تشدد میں اضافہ کیا ہے۔
گزشتہ چند مہینوں میں کئی ایسی رپورٹیں سامنے آئی ہیں جنہوں نے ایک "بڑے طوفان” سے متنبہ کیا ہے، جس کی ایک جھلک ہیلپ لائنز اور آن لائن سپورٹ نیٹ ورکس کو آنے والی کالز اور پولیس رپورٹوں میں اضافے سے ملتی ہے۔ اس صورت میں کئی کثیر القومی اداروں نے فوری اقدامات اٹھائے اور دونوں اقسام کے تشدد میں اضافے کے خطرے سے خبردار کیا، جبکہ محققین نے ماضی میں ایسی ہی بحرانی صورت حال کا جائزہ لیا اور ان سے درپیش ممکنہ خطرات کو کم کرنے کے لیے پالیسی اقدامات تجویز کیے۔
ایک ایسے وقت میں دنیا بھر کی حکومتوں کی توجہ کووِڈ-19 سے نمٹنے پر ہے، تشدد کی اس لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟ یونیسیف کی جینڈر اینڈ ڈیولپمنٹ ریسرچ مینیجر الیسینڈرا گیوڈیس اور یونیسیف میں سوشل پالیسی اسپیشلسٹ ایمبر پیٹرمین نے یہ چند تجاویز پیش کی ہیں۔
1۔ ہیلپ لائن اور انفارمیشن شیئرنگ میں اضافہ
موجودہ صورت حال میں مختلف ذرائع سے معلومات کو بڑے پیمانے پر پھیلایا جا رہا ہے۔ ہیلپ لائن اور آن لائن سپورٹ پلیٹ فارمز بھی قائم کیے گئے ہیں یا پھر ان کو وسعت دی گئی ہے۔ اٹلی جو کہ وباء سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے، نے "ایمرجنسی میں ایمرجنسی” قرار دیتے ہوئے 1522 ہیلپ لائن بنائی جو گھریلو تشدد کے حوالے سے کام کرتی ہے۔ مختلف دوسرے ملکوں نے کووِڈ-19 کے دوران اپنی ہیلپ لائن اور انفارمیشن چینلز کھلے رکھے۔
2۔ پناہ گاہوں کو مالی مدد
کئی ممالک نے ظاہر کیا ہے کہ قرنطینہ کے دوران انہیں اضافی دارالامان اور پناہ گاہوں کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کی موجودگی انہیں ظلم سے بچانے میں مدد دیتی ہے۔ کووِڈ-19 ریلیف پیکیج کے تحت کینیڈا نے خواتین کے لیے پناہ گاہوں اور جنسی جرائم کا نشانہ بننے والی خواتین کے مراکز کی خاطر 50 ملین ڈالرز مختص کیے۔ فرانس میں خواتین کو مظالم سے بچانے والے اداروں کے لیے 11 لاکھ یوروز کی اضافی فنڈنگ دی گئی۔ اسی طرح آسٹریا اور جرمنی نے بھی اقدامات اٹھائے۔ یہ بہت اہم اقدامات ہیں کیونکہ اس سے ان خواتین کو ظلم سے بچانے کی ضمانت ملتی ہے، جن کے لیے گھر پر رہنا ایک چیلنج ہوتا ہے۔
3۔ مظلوم خواتین کے لیے خدمات میں اضافہ
قرنطینہ کی محدودیت کی وجہ سے ہر شخص کی نقل و حرکت اور آزادی محدود ہو گئی ہے، اس لیے چند ممالک خواتین کو ظلم سے بچانے کے لیے اپنی خدمات کو توسیع دینے کے نئے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔ فرانس نے گروسری اسٹورز میں ‘پوپ اپ’ سینٹرز قائم کیے کہ جہاں خواتین کی آمد جاری ہیں۔ چند ممالک، بشمول فرانس، اٹلی اور اسپین میں دوا خانوں کو ایسے خصوصی ‘کوڈ ورڈز’ سگنلز دیے گئے جن سے وہ متعلقہ حکام سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ چند ملکوں نے خفیہ ایپس بھی جاری کیں یا اپنی موجودہ ایپس کو بہتر بنایا تاکہ مدد حاصل کرنے کی خواہشمند خواتین انتہائی رازداری سے اطلاع دے سکیں۔ اس صورت حال میں خواتین اور بچوں کے لیے پروٹیکشن سروسز کو لازمی قرار دیا جانا چاہیے اور انہیں کووِڈ-19 کی وجہ سے بند نہیں ہونا چاہیے۔
4۔ تشدد پر مائل کرنے والے دیگر عوامل کو محدود کرنا
کچھ ممالک کووِڈ-19 سے اس طرح نمٹ رہے ہیں کہ جن سے تشدد کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ جیسا کہ گرین لینڈ نے اپنے دارالحکومت میں شراب کی فروخت پر پابندی لگا دی۔ جنوبی افریقہ نے بھی ایسے ہی اقدامات اٹھائے حالانکہ نشے کے عادی افراد اپنی طلب پوری نہ ہونے پر تشدد میں مزید آگے بڑھ جاتے ہیں۔ دیگر ممالک کو بھی ایسے ہی متعلقہ خطرات کو محدود کرنے کے لیے قبل از وقت اقدامات اٹھانے چاہئیں جیسا کہ اس تناؤ بھرے ماحول میں ہتھیاروں کی فروخت تک رسائی کو محدود کرنا چاہیے کیونکہ اس سے خواتین اور بچوں کے قتل کا خطرہ کم ہو سکتا ہے۔ اسمارٹ پالیسی ایکشن بھی تناؤ کو گھٹانے اور ذہنی صحت کے فروغ کے لیے سہولت دے سکتا ہے۔
5۔ عائلی قوانین اور نظامِ عدل میں بہتری
آسٹریلیا نے اپنے عائلی قوانین میں کئی تبدیلیاں کی ہیں جن سے عدالتوں کے لیے ممکن ہوا ہے کہ وہ قرنطینہ کے دوران بھی ایسے واقعات پر بہتر ردعمل دکھائیں۔ دیگر ممالک بھی نظامِ انصاف میں بہتری اور جدت لا کر اور قانون میں ترامیم کر کے ان مشکل حالات میں ظلم کی شکار یا اس سے بچ جانے والی خواتین کو تحفظ یقینی بن سکتے ہیں۔
بلاشبہ یہ اقدامات قابل تعریف ہیں ، لیکن کئی ممالک نے اب بھی خواتین کے لیے ضروری سروسز بڑھانے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ زیادہ تر پالیسی ردعمل امیر ممالک میں دیکھا گیا ہے، جو اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ کئی غریب ممالک خواتین اور بچوں پر تشدد سے نمٹنے کے لیے محدود بجٹ رکھتے ہیں، بحران کی صورت حال نہ بھی ہو تب بھی۔
اس لیے ضرورت ہے کہ موجود وسائل کی بنیاد پر انتہائی ضروری پہلوؤں کو ہدف بنایا جائے۔ لیکن اس کے لیے انتہائی عرق ریزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہو سکتا ہے صورت حال حقائق کی درست عکاس نہ ہو۔ جیسا کہ چند علاقوں میں گھریلو تشدد کی ہاٹ لائنز پر کالز میں کمی آئی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ظلم کی شکار خواتین اور ظالم شخص دونوں ایک ہی جگہ پر مقید ہیں، کیونکہ نہ وہ گھر سے باہر جا رہا ہے اور نہ خاتون جا سکتی ہیں، اس لیے وہ محفوظ طریقے سے کسی کو اطلاع بھی نہیں دے سکتی۔ پھر تعلیمی ادارے اور سماجی اداروں کی بندش سے بھی مسائل جنم لے رہے ہیں کیونکہ اس سے اساتذہ یا سماجی کارکنوں کی ایسی مظلوم خواتین سے ملاقاتوں میں کمی آئی ہے۔ امریکا میں کئی ریاستوں نے بچوں پر مظالم میں کمی ظاہر کی ہے، جو دراصل ان واقعات کا پتہ چلانے میں کمی ہے، واقعات میں ہرگز نہیں۔
کیونکہ لاک ڈاؤن کے دوران زیادہ تر وقت فونز اور کمپیوٹرز پر گزر رہا ہے اس لیے نئی قسم کا تشدد بھی ابھرا ہے، آن لائن۔ اس میں جنسی ہراسگی اور استحصال بھی شامل ہے۔ کووِڈ-19 سے تعلق رکھنے والے تشدد کی دیگر اقسام کو گھٹانے کے لیے بھی اقدامات اٹھنے چاہئیں۔ ایسے اقدامات کی مستقل نگرانی بھی ہونی چاہیے تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان کے ویسے ہی اثرات مرتب رہے ہیں جیسا کہ چاہے گئے تھے اور ان سے کوئی بلاوجہ کا نقصان تو نہیں ہو رہا؟
"کئی خواتین اور لڑکیوں کو سب سے زیادہ خطرہ وہیں پر درپیش ہے کہ جہاں انہیں سب سے زیادہ محفوظ ہونا چاہیے تھا، یعنی اپنے ہی گھر میں۔” جیسا کہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ یہ وقت ہے حکومتوں کے بہتر طرزِ عمل کا، تاکہ تشدد کی روک تھام اور اس کی شکار خواتین کی مدد کے معاملات میں بہتری آئے۔ جب بھی معاملہ خواتین کو تشدد سے بچانے اور اس میں کمی لانے کا ہوگا، ذمہ داری سب پر عائد ہوگی، خاص طور پر ان مشکل ایام میں۔
جواب دیں